Saturday, September 10, 2011


Friday, September 9, 2011


کارل مارکس اور سرمایہ دارانہ نظام

کارل مارکس کمیونزم کے بارے میں غلط ہو سکتا ہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے بارے میں اُس کے زیادہ تر خیالات صحیح تھے۔
عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے موجودہ بحران کے بعد زیادہ سے زیادہ لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ کارل مارکس صحیح تھا۔
انیسویں صدی کے اِس عظیم فلسفی، معیشت دان اور انقلابی کے مطابق سرمایہ دارانہ نظام شدید طور پر ایک غیر مستحکم نظام ہے۔
کارل مارکس سمجھتے تھے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے اپنے اندر یہ خامی موجود ہے کہ یہ مسلسل بڑے پیمانے پر معاشی اتارچڑھاؤ پیدا کرتا ہے اور آخر کار اپنے آپ ہی کو ختم کر لے گا۔
مارکس نے سرمایہ دارانہ نظام کی خود ہی کو تباہ کرنے کی خصوصیت کا خیرمقدم کیا۔ انہیں اس بات پر اعتماد تھا کہ ایک عوامی انقلاب آ کر رہے گا اور جس کے نتیجے میں کمیونسٹ نظام آ جائے گا جو زیادہ پیداوار کرنے والا اور زیادہ انسان دوست نظام ہے۔
مارکس کے کمیونسٹ نظریات غلط تھے لیکن سرمایہ دارانہ نظام سے متعلق وہ پیغمبرانہ حد تک صحیح تھا۔ وہ نہ صرف سرمایہ دارانہ نظام میں مستقل طور پر پائے جانے والے عدم استحکام کو صحیح طور پر سمجھا تھا بلکہ وہ اِس نظام پر اپنے زمانے اور موجودہ دور کے معیشت دانوں کے مقابلے میں زیادہ گہری نظر رکھتا تھا۔
مارکس کو اِس بات کی پوری سمجھ تھی کہ سرمایہ دارانہ نظام کس طرح اپنے ہی سماجی ڈھانچے، متوسط طبقے کا طرز زندگی کو تباہ کر دیتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام نے ایک انقلاب تو ضرور برپا کیا لیکن یہ ویسا انقلاب نہیں تھا جس کی مارکس کو توقع تھی۔ وہ جرمن مفکر بورژوا طرزِ زندگی سے نفرت کرتا تھا اور اُس نے اِسے تباہ کرنے کے لیے کمیونزم کا سہارا لیا۔ اُس نے جو پیش گوئی کی تھی اُس کے عین مطابق بورژوا دنیا تباہ کر دی گئی۔ لیکن یہ کام کمیونزم نے نہیں کیا بالکہ سرمایہ دارانہ نظام نے ہی بورژوازی یعنی اشرافیہ کو ختم کر دیا۔
مارکس جب یہ کہتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام متوسط طبقے کو ایک ایسی صورتحال کی جانب دھکیل دے گا جہاں وہ سخت دباؤ کے شکار مزدور طبقے کی طرح کی صورتحال کا سامنا کر رہے ہوں گے۔ مارکس نے جو پیش گوئی کی تھی ہم آج کل ایسی ہی صورتحال سے نمٹنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔
مارکس سرمایہ دارانہ نظام کو تاریخ کا سب سے زیادہ انقلابی معاشی نظام سمجھتا تھا۔ اِس میں کوئی شک نہیں یہ نظام اِس سے پہلے کے معاشی نظاموں سے انقلابی حد تک مخلتف ہے۔
غلامی کا نظام اورجاگیردارانہ معاشرے کئی صدیوں تک قائم رہے۔ اِن کے مقابلے میں سرمایہ دارانہ نظام جس چیز کو چھوتا ہے اسے بدل دیتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں صرف برانڈ ہی تیزی سے تبدیل نہیں ہوتے بلکہ کمپنیاں اور صنعتیں بھی تخلیقی اور اچھوتے عمل کے نتیجے میں بنتی اور ختم ہوتی ہیں جب کہ انسانی رشتے بھی تحلیل اور نئی شکل میں دوبارہ بنتے ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام کو تخلیقی تباہی کا ایک عمل کہا جاتا رہا ہے اور اِس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ یہ نظام بے پناہ پیداوار کرتا ہے۔ برطانیہ میں اِس وقت جو لوگ رہ رہے ہیں اُن کی اصل آمدنی اُس آمدنی سے کہیں زیادہ ہے جو سرمایہ دارانہ نظام اِس ملک میں نہ آنے کی صورت میں اُن کی ہوتی۔
مسئلہ یہ ہے کہ اس سارے عمل میں جو چیزیں تباہ ہوتی ہیں اُن میں وہ طریقۂ زندگی بھی شامل ہے جس پر ماضی میں سرمایہ دارانہ نظام انحصار کرتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے مستقبل کے بارے میں جس میں مارکیٹ زندگی کے ہر کونے پر پھیل جائے مارکس کمیونسٹ مینی فیسٹو میں لکھا ہے کہ ’ہر چیز جو ٹھوس ہے وہ ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہے‘۔
کمیونسٹ مینی فیسٹو اٹھارہ سو اڑتالیس میں شائع ہوا تھا جب برطانیہ میں وکٹورین دور کے ابتدائی دن تھے۔ اُس دور میں رہنے والے شخص کے لحاظ سے یہ ایک انتہائی دوربیں خیالات تھے۔
سرمایہ دارانہ نظام نے ایک انقلاب تو ضرور برپا کیا لیکن یہ ویسا انقلاب نہیں تھا جس کی مارکس کو توقع تھی۔ وہ جرمن مفکر بورژوا طرزِ زندگی سے نفرت کرتا تھا اور اُس نے اِسے تباہ کرنے کے لیے کمیونزم کا سہارا لیا۔ اُس نے جو پیش گوئی کی تھی اُس کے عین مطابق بورژوا دنیا تباہ کر دی گئی۔ لیکن یہ کام کمیونزم نے نہیں کیا بلکہ سرمایہ دارانہ نظام نے خود ہی بورژوازی یعنی اشرافیہ کو ختم کر دیا ہے۔

Thursday, September 8, 2011


Wednesday, September 7, 2011

Press for Peace urges India, Pakistan to maintain ceasefire agreement in Kashmir

Muzaffarabad: 03 September 2011

Press for Peace (PFP), a Muffarabad based human rights organisation
has urged India and Pakistan to maintain the sanctity of ceasefire
agreement which was signed between them about eight years ago.

The PFP has condemned the incident of cross border firing in the
Dhudnial sector of the Line of Control (LoC) in Azad Kashmir. A press
release issued here today said that three Pakistani and an Indian
soldier were killed in an incident of firing between the troops
deployed along the LoC a day earlier. Both the armies had blamed each
other for violating the ceasefire agreement signed in 2003.

The  Pakistan Army had confirmed the killing of three Pakistani
troopers; however, the Indian side alleged that they had noted a
heightened militant activity in the Keran Sector during the last two
days.

Though, both countries had agreed a ceasefire on the fragile Line of
Control in 2003, there has been reports of border skirmishes between
their armies in the previous years.

Press for Peace has asked India and Pakistan to observe the sanctity
of the ceasefire agreement.

The press release issued by the organisation said that there have been
attempts of disturbing peace in the region since last many months and
it was observed that the presence of the banned militant organisations
was escalating in the guise of aid activity.

The statement said that civilian population living across the LoC has
paid heavy price for conflict, therefore, they need sustainable peace.



 Press for Peace had first observed in 2008 that suspicious actions
were ongoing in the area in guise of humanitarian activities. The PFP
had launched an awareness campaign to highlight the miseries of local
people following the tense situation along the LoC.