Tuesday, July 12, 2011



www.chinarnews.com.pk

Sunday, July 10, 2011

امریکا کا پاکستانی فوجی امداد معطل کرنے پر غور شروع

نیویارک: امریکی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ اوباما انتظامیہ پاکستان کو دی جانے والی آٹھ سو ملین ڈالر امداد منسوخ یا ملتوی کرسکتی ہے۔ اس کی وجہ پاک امریکہ تعلقات میں موجودہ کشیدگی بتائی جارہی ہے۔ اخبار نیو یارک ٹائمز نے تین امریکی عہدیداروں کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ قدم پاکستان سے امریکی ٹرینرز کو بیدخل کئے جانے کے ردعمل کے طور پر اٹھایا جائے گا۔ جبکہ اوباما انتظامیہ پاکستانی فوج کو دباؤ میں لانا چاہتی ہے تاکہ وہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں موثر طریقے سے کردار ادا کرسکے۔ حکام کا کہنا ہے کہ امریکی حکام کے حالیہ بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اوباما انتظامیہ پاکستان کیساتھ اپنے رویے میں تبدیلی لارہی ہے اور پاک فوج کو دی جانے والی آٹھ سو ملین ڈالرز کی فوجی سازوسامان کی فراہمی متاثر ہوسکتی ہے۔ ریمنڈ ڈیوڈ کیس اور ایبٹ آباد اپریشن کے بعد پاکستان کی جانب سے امریکی ملٹری ٹرینرز کو نکال دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ شمسی ائیر بیس سے سی آئی اے ڈرون حملے بند کئے جانے کی دھمکیوں سے امریکہ ناراض ہے۔ جس کے بعد امریکہ پاکستان کی آٹھ سو ملین ڈالرز کی امداد روک سکتا ہے۔ یا منسوخ کر سکتا ہے۔ یہ رقم پاکستان کیلئے 2 ارب ڈالر کی امریکی امداد کا حصہ ہے۔ جس میں سے تقریباً تین سو ملین ڈالرز پاکستان کی جانب سے پاک افغان بارڈر پر ایک لاکھ سے زائد فوجی دستے تعینات کرنے کی مد میں ادا کئے جانے تھے۔ باقی رقم ملٹری ٹریننگ اور دیگر فوجی سازوسامان کیلئے دی جانی تھی۔ امریکی حکام نے کہا ہے کہ اگر پاکستان دہشت گردوں کیخلاف کاروائی میں سنجیدہ ہوا تو امداد اور فوجی سازوسامان کی فراہمی بحال کی جاسکتی ہے۔ حکام کا کہنا تھا کہ امداد رکنے سے پاکستان کو دفاعی سازوسامان کی فراہمی بشمول ایف سولہ لڑاکا طیاروں یا غیر فوجی امداد پر اثر نہیں پڑے گا۔ امریکی امداد کی کٹوتی سے شاید فوج کے مجموعی بجٹ پر تھوڑا بہت فرق پڑ سکے گا اور غالبا اس سے انسداد دہشت گردی کوششوں پر براہ راست اثر پڑے گا جبکہ بعض سینئر امریکی احکام اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جب صدر اوباما نے اقتدار سنبھالا تو انتظامیہ اس کی امید بھی نہیں کرسکتی تھی کہ پاکستان اس کا اس قدر اتحادی ہوگا۔ بعض نے خبردار کیا ہے کہ امداد روکنے سے تعلقات ختم ہوسکتے ہیں اور 1990 کی دہائی والی صوت حال پیدا ہوسکتی ہے۔ اخبار کے مطابق امریکی حکام کا کہنا ہے کہ موجودہ صورت حال کا ذمہ دار خود پاکستان ہے ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی فوج نے ایبٹ آباد آپریشن کے بعد امریکہ مدد سے خود کو دور کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی میں رواں برس مئی میں ایبٹ آباد میں پاکستانی فوج کی مرکزی تربیتی اکیڈمی سے چند سو میٹر کے فاصلے پر القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ایک خفیہ امریکی فوجی کارروائی میں ہلاکت کے بعد سے شدید اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ امریکی ڈرون حملوں میں عسکریت پسندوں کے علاوہ عام شہریوں کی ہلاکت پر بھی اسلام آباد اور واشنگٹن حکومت کے درمیان تلخی پائی جاتی ہے۔ امریکی اخبار کے مطابق پاکستانی فوج کو سکیورٹی معاونت کے سلسلے میں دی جانے والی اس امداد میں 300 ملین ڈالر وہ رقم ہے۔ جو افغان سرحد پر ایک لاکھ فوجیوں کی تعیناتی کے سلسلے میں پاکستانی فوج کے اخراجات کے سلسلے میں اسے واپس ملنا تھی۔ دیگر امداد فوجی ساز و سامان ہے جو اب پاکستانی فوج کو نہیں دیا جائے گا۔ تاہم ان امریکی عہدیداروں کے مطابق تعلقات معمول پر آنے کے بعد یہ امداد بحال کردی جائے گی۔ چند ہفتے قبل اسلام آباد نے امریکہ سے درخواست کی تھی کہ وہ پاکستان میں موجود امریکہ کے فوجی تربیت کار واپس بلا لے۔ پاکستانی فوج کا کہنا تھا کہ اب تربیت صرف نئے فوجی ساز و سامان کے حوالے سے ہی لی جائے گی۔ اس کے علاوہ پاکستان نے یہ دھمکی بھی دی تھی کہ وہ سی آئی اے کے زیر استعمال پاکستان میں قائم ایک فوجی اڈہ بھی بند کر سکتا ہے۔

Friday, July 8, 2011



 US military’s top officer, Admiral Mike Mullen, said on Thursday that Pakistan’s government may have sanctioned the killing of a Pakistani journalist, voicing grave concern over the attack.
Asked about media reports that Islamabad sanctioned or approved the killing of the reporter, he said: “I haven’t seen anything that would disabuse that report.”
He said he was concerned about the incident and suggested other reporters had suffered a similar fate in the past.
“His (death) isn’t the first. For whatever reason, it has been used as a method historically,” Mullen told reporters at a Pentagon Press Association event.
While acknowledging that Pakistani officials have denied the government had any role in the death of Saleem Shahzad, Mullen said the episode raised worrying questions about the country’s current course.
“It’s not a way to move ahead. It’s a way to continue to quite frankly spiral in the wrong direction,” said Mullen, who has held numerous meetings with Pakistani counterparts during his tenure as chairman of the US Joint Chiefs of Staff.
Mullen’s remarks are sure to aggravate already strained relations between the uneasy allies after the US raid north of Islamabad in May that killed Al-Qaeda chief Osama bin Laden,
The New York Times, citing US officials, had reported on Monday that the powerful Inter-Services Intelligence (ISI) agency ordered the killing of Shahzad to muzzle criticism.
The ISI has vehemently dismissed such reports as “baseless” allegations.
Shahzad, who worked for an Italian news agency and a Hong Kong-registered news site and had reported about Islamist militants infiltrating the military, went missing en route to a television talk show and his body was found May 31 south of the capital, bearing marks of torture.
Shahzad disappeared two days after writing an investigative report in Asia Times Online saying Al-Qaeda carried out a recent attack on a naval air base to avenge the arrest of naval officials held on suspicion of Al-Qaeda links.
Pakistani Prime Minister Yousuf Raza Gilani had ordered an inquiry into the kidnapping and murder, pledging that the culprits would be brought to book.
Citing mounting tensions over the past year, Mullen said the relationship with Pakistan is under extraordinary pressure.
Even before the unilateral Bin Laden raid, ties had become strained, Mullen said, particularly over the arrest of a CIA contractor in Pakistan who was charged with double murder before eventually being released.
“So we’ve been through a very, very rough time. Washington was committed to sustaining that relationship, but we recognize it’s under great stress right now and we need to see our way through it,” he said.
The military’s top-ranking officer, who is due to step down at the end of September after four years, also said that the US military presence in Pakistan had been dramatically scaled back at Islamabad’s request.