Sunday, July 10, 2011

امریکا کا پاکستانی فوجی امداد معطل کرنے پر غور شروع

نیویارک: امریکی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ اوباما انتظامیہ پاکستان کو دی جانے والی آٹھ سو ملین ڈالر امداد منسوخ یا ملتوی کرسکتی ہے۔ اس کی وجہ پاک امریکہ تعلقات میں موجودہ کشیدگی بتائی جارہی ہے۔ اخبار نیو یارک ٹائمز نے تین امریکی عہدیداروں کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ قدم پاکستان سے امریکی ٹرینرز کو بیدخل کئے جانے کے ردعمل کے طور پر اٹھایا جائے گا۔ جبکہ اوباما انتظامیہ پاکستانی فوج کو دباؤ میں لانا چاہتی ہے تاکہ وہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں موثر طریقے سے کردار ادا کرسکے۔ حکام کا کہنا ہے کہ امریکی حکام کے حالیہ بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اوباما انتظامیہ پاکستان کیساتھ اپنے رویے میں تبدیلی لارہی ہے اور پاک فوج کو دی جانے والی آٹھ سو ملین ڈالرز کی فوجی سازوسامان کی فراہمی متاثر ہوسکتی ہے۔ ریمنڈ ڈیوڈ کیس اور ایبٹ آباد اپریشن کے بعد پاکستان کی جانب سے امریکی ملٹری ٹرینرز کو نکال دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ شمسی ائیر بیس سے سی آئی اے ڈرون حملے بند کئے جانے کی دھمکیوں سے امریکہ ناراض ہے۔ جس کے بعد امریکہ پاکستان کی آٹھ سو ملین ڈالرز کی امداد روک سکتا ہے۔ یا منسوخ کر سکتا ہے۔ یہ رقم پاکستان کیلئے 2 ارب ڈالر کی امریکی امداد کا حصہ ہے۔ جس میں سے تقریباً تین سو ملین ڈالرز پاکستان کی جانب سے پاک افغان بارڈر پر ایک لاکھ سے زائد فوجی دستے تعینات کرنے کی مد میں ادا کئے جانے تھے۔ باقی رقم ملٹری ٹریننگ اور دیگر فوجی سازوسامان کیلئے دی جانی تھی۔ امریکی حکام نے کہا ہے کہ اگر پاکستان دہشت گردوں کیخلاف کاروائی میں سنجیدہ ہوا تو امداد اور فوجی سازوسامان کی فراہمی بحال کی جاسکتی ہے۔ حکام کا کہنا تھا کہ امداد رکنے سے پاکستان کو دفاعی سازوسامان کی فراہمی بشمول ایف سولہ لڑاکا طیاروں یا غیر فوجی امداد پر اثر نہیں پڑے گا۔ امریکی امداد کی کٹوتی سے شاید فوج کے مجموعی بجٹ پر تھوڑا بہت فرق پڑ سکے گا اور غالبا اس سے انسداد دہشت گردی کوششوں پر براہ راست اثر پڑے گا جبکہ بعض سینئر امریکی احکام اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جب صدر اوباما نے اقتدار سنبھالا تو انتظامیہ اس کی امید بھی نہیں کرسکتی تھی کہ پاکستان اس کا اس قدر اتحادی ہوگا۔ بعض نے خبردار کیا ہے کہ امداد روکنے سے تعلقات ختم ہوسکتے ہیں اور 1990 کی دہائی والی صوت حال پیدا ہوسکتی ہے۔ اخبار کے مطابق امریکی حکام کا کہنا ہے کہ موجودہ صورت حال کا ذمہ دار خود پاکستان ہے ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی فوج نے ایبٹ آباد آپریشن کے بعد امریکہ مدد سے خود کو دور کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی میں رواں برس مئی میں ایبٹ آباد میں پاکستانی فوج کی مرکزی تربیتی اکیڈمی سے چند سو میٹر کے فاصلے پر القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ایک خفیہ امریکی فوجی کارروائی میں ہلاکت کے بعد سے شدید اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ امریکی ڈرون حملوں میں عسکریت پسندوں کے علاوہ عام شہریوں کی ہلاکت پر بھی اسلام آباد اور واشنگٹن حکومت کے درمیان تلخی پائی جاتی ہے۔ امریکی اخبار کے مطابق پاکستانی فوج کو سکیورٹی معاونت کے سلسلے میں دی جانے والی اس امداد میں 300 ملین ڈالر وہ رقم ہے۔ جو افغان سرحد پر ایک لاکھ فوجیوں کی تعیناتی کے سلسلے میں پاکستانی فوج کے اخراجات کے سلسلے میں اسے واپس ملنا تھی۔ دیگر امداد فوجی ساز و سامان ہے جو اب پاکستانی فوج کو نہیں دیا جائے گا۔ تاہم ان امریکی عہدیداروں کے مطابق تعلقات معمول پر آنے کے بعد یہ امداد بحال کردی جائے گی۔ چند ہفتے قبل اسلام آباد نے امریکہ سے درخواست کی تھی کہ وہ پاکستان میں موجود امریکہ کے فوجی تربیت کار واپس بلا لے۔ پاکستانی فوج کا کہنا تھا کہ اب تربیت صرف نئے فوجی ساز و سامان کے حوالے سے ہی لی جائے گی۔ اس کے علاوہ پاکستان نے یہ دھمکی بھی دی تھی کہ وہ سی آئی اے کے زیر استعمال پاکستان میں قائم ایک فوجی اڈہ بھی بند کر سکتا ہے۔

No comments:

Post a Comment