Friday, August 5, 2011


’زیرحراست شہریوں کی زندگیوں کو سخت خطرہ‘

بلوچستان میں لاپتہ ہونے والے افراد کی گولیوں سے چھننی اور تشدد زدہ لاشیں ملنے کے واقعات میں تیزی آئی ہے: ایمنسٹی
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں دس زیرحراست شہریوں کی رہائی کے لیے انٹرنیٹ پر ایک ہنگامی اپیل جاری کی ہے۔
تنظیم کے مطابق زیر حراست شہریوں کی زندگیاں سخت خطرے میں ہیں۔
بلوچستان میں فرنٹیئر کور کے ترجمان مرتضیٰ بیگ نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اس الزام کو مسترد کر دیا ہے۔
ترجمان نے رپورٹ کو غلط اور بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایف سی نے خضدار ضلع میں یا کسی اور علاقے میں ایسی کوئی کارروائی نہیں کی اور نہ کوئی بندہ ایف سی کی حراست میں ہے۔
ایف سی نے خضدار ضلع میں یا کسی اور علاقے میں ایسی کوئی کارروائی نہیں کی اور نہ کوئی بندہ ایف سی کی حراست میں ہے
مرتضیٰ بیگ
اسلام آباد سے نامہ نگار احمد رضا کے مطابق ایمنسٹی نے دنیا بھر کے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ ان افراد کی زندگیاں بچانے کے لیے پاکستان کے وزیر اعظم، وزیر داخلہ رحمن ملک اور بلوچستان کے وزیر اعلیٰ سردار اسلم رئیسانی کو تحریری اپیلیں بھیجیں۔
تنظیم کے مطابق ان میں عتیق محمد قلندرانی، خلیل الرحمن قلندرانی، وسیم رحمن، نثار احمد گرگناری، آفتاب قلندرانی، نصیب رحمن قلندرانی، محمد رحیم خان قلندرانی، ڈاکٹر محمد طاہر قلندرانی، فدا احمد قلندرانی اور ندیم قلندرانی شامل ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں تعینات نیم فوجی ادارے فرنٹیئر کور نے اٹھارہ فروری کو ضلع خضدار کے قصبے توتک میں سرچ آپریشن کے دوران ان دس افراد سمیت انتیس بلوچوں کو حراست میں لیا تھا۔
تنظیم کے مطابق حراست میں لیے گئے افراد میں سے اٹھارہ افراد کو تو بعد میں رہا کر دیا گیا لیکن ایک زیر حراست نوجوان مقصود قلندرانی کی تشدد زدہ لاش سولہ جولائی کو کوئٹہ کے قریب جبلِ نور کے علاقے سے برآمد ہوئی اور پولیس کے مطابق اس کی جیب سے ایک تحریر بھی ملی جس میں کہا گیا تھا کہ وہ بلوچستان لبریشن آرمی کا ایجنٹ تھا۔
بلوچستان میں چوبیس اکتوبر سال دو ہزار دس سے اکتیس مئی سال دو ہزار گیارہ کے دوران تہتر افراد لاپتہ ہوئے جبکہ ایک سو آٹھ افراد کو ممکنہ طور پر ماورائے عدالت قتل کیا گیا جن میں بلوچ سیاسی کارکن، صحافی، اساتذہ اور وکلاء شامل تھے
ایمنسٹی انٹرنیشنل
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ مقصود قلندرانی بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد گروپ کا کارکن تھا۔
اپیل میں کہا گیا ہے کہ مقصود قلندرانی کے ساتھ حراست میں لیے گئے ان دس افراد کا اب تک کچھ پتہ نہیں چل پایا ہے کہ انہیں کہاں رکھا گیا ہے اور مقصود کی موت کے بعد خطرہ ہے کہ کہیں ان افراد کا بھی وہی انجام نہ ہو۔
’یہ افراد بھی جن میں سے زیادہ تر کا تعلق قلندرانی قبیلے سے ہے، حراست کے دوران اذیتوں اور ماورائے عدالت قتل کے خطرے سے دوچار ہیں۔‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل کہتی ہے کہ بلوچستان میں لاپتہ ہونے والے افراد کی گولیوں سے چھلنی اور تشدد زدہ لاشیں ملنے کے واقعات میں تیزی آئی ہے جس سے علاقے میں ’مارو اور پھینک دو‘ آپریشنز کے بڑھتے ہوئے رجحان کا پتہ چلتا ہے۔
تنظیم کے مطابق بلوچستان میں چوبیس اکتوبر سال دو ہزار دس سے اکتیس مئی سال دو ہزار گیارہ کے دوران تہتر افراد لاپتہ ہوئے جبکہ ایک سو آٹھ افراد کو ممکنہ طور پر ماورائے عدالت قتل کیا گیا جن میں بلوچ سیاسی کارکن، صحافی، اساتذہ اور وکلاء شامل تھے۔
شورش زدہ بلوچستان میں پاکستانی ریاست اور بلوچ قوم پرستوں کے درمیان محاذ آرائی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں جن میں دونوں طرف کے لوگ ملوث ہیں
ایمنسٹی
’اس عرصے میں ماورائے عدالت قتل ہونے والے ان ایک سو آٹھ افراد میں سے کم از کم ترانوے افراد وہ تھے جو قتل سے پہلے لاپتہ ہوگئے تھے۔ مقتولین کے ورثاء اور بلوچ کارکن ان ہلاکتوں کا الزام فرنٹیئر کور پر ہی لگاتے ہیں۔‘
ایمنسٹی کہتی ہے کہ شورش زدہ بلوچستان میں پاکستانی ریاست اور بلوچ قوم پرستوں کے درمیان محاذ آرائی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں جن میں دونوں طرف کے لوگ ملوث ہیں۔
تنظیم نے اپنی ہنگامی اپیل میں دنیا بھر کے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ پاکستانی اور بلوچستان کی حکومتوں کو خطوط لکھ کر ان سے مطالبہ کریں کہ وہ ان دس بلوچوں کی حراست کی فوری اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کرائیں اور اس کے ذمہ داروں کو سزا دلوائیں۔
ساتھ ہی ان افراد کو یا تو فی الفور رہا کیا جائے یا انہیں کسی اعلانیہ سرکاری قید خانے میں منتقل کیا جائے اور اگر ان کے خلاف کوئی الزامات ہیں تو ان پر باضابطہ طور پر فرد جرم عائد کی جائے۔
یکہ توت پولیس کا روزنامہ پاکستان کے رپورٹر پر تشدد موبائل فون اور دفتر کے شناختی کارڈ سے محروم کر دیا بعد ازاں موبائل قبرستان میں چھوڑ کرفرار ہو گئے یکہ توت پولیس کے اہلکاروں اے ایس آئی ہمت گل اور ڈرائیور نذیر نے روزنامہ پاکستان کے رپورٹر آصف شہزاد کو رنگ روڈ پشاور میں ہزارخوانی کے مقام پرروک کر کہا کہ ہم نے آپکو آوازدی مگر آپ رکے نہیں اور اسکے بعد گریبان سے پکڑ کر اس پرتشدد شروع کردیا۔ صحافی کی جانب سے اپنی پہچان کروانے پر انہوں نے گالیاں دیں اورکہا کہ جو کر سکتے ہو کر لو جبکہ صحافی آصف شہزاد سے موبائل اور روزنامہ پاکستان کا دفتری کارڈ پولیس موبائل کے ڈرائیور نے چھین لیا کہ تھانے آ کرلے جانا۔ تھانے رابطہ کرنے کے بعد پولیس اہلکاروں نے موبائل فون قریبی قبرستان میں پھینک دیا جو کہ بعد ازاں ایک شہری نے اٹھایا اور صحافی کو اپنے ہی موبائل کی دوبارہ 500روپے قیمت ادا کرنی پڑی۔ پولیس سے رابطہ کرنے پر ایس ایچ او بشیرداد نے اپنے اہلکاروں پر پردہ ڈالتے ہوئے کہا کہ وہ بے گناہ ہیں اور اس واقعہ میں ان کے اہلکاروں کا کئی کوئی قصورنہیں ہے۔

Thursday, August 4, 2011


Dear all,

In this holy month of Ramadan over five hundred workers of ATV is facing the fear of redundancy. Now in this Eid media workers (ATV Workers) will be on the streets wondering for jobs and looking for cloths for there children.

On 22nd July 2011 STN's plea, Supreme Court of Pakistan issue orders to put ATV on Hold and says to go off air from 15th of August.

Shalimar recording and broadcasting company Known as STN was ordered to run its own transmition on there own no second party should be involved as the orders were issued .

On the other hand truth is before every one that STN cant run this channel by its own as they were a burden of millions of rupees for pas governments.

Without questioning the issue that who will run the Atv the real question is that where will media workers will go and what they will do?

On May 2011 in a high level meeting with media workers President of Pakistan Asif Ali Zardari issue orders to federal minister for information and broadcasting Firdous Ashiq Awan to issuer the jobs of media workers and I was in that meeting too. Orders were clear as it was to ensure that media workers will be provided with job security.

Democratic government should act on president of Pakistan's orders and provide safe employment to the media workers of ATV.

But on the other hand ATV Management got a stay order and both parties left media workers in open sky no one to give them shelter.

Only ten days left as they will be jobless by the act.

Is there is any one from government or her spokesman who will answer the question that what these media workers had done except hardworking and taking ATV to its top level?

Tuesday, July 26, 2011



MUZAFFARABAD July 26 .President Pakistan Peoples Party AJK and Senior Parliamentarian Ch. Abdul Majeed took oath as 11th Prime Minister of The Azad Government of The State of Azad Jammu Kashmir here on Tuesday at a ceremony held on the premises of the Legislative Assembly. President AJK Raja Zulqarnain Khan administered the oath to him. The ceremony was attended by Secretary General Pakistan Peoples Party Jehangir Badar, Federal Minister Kashmir &  Gilgit and Baltistan  Affairs Mian Manzoor Watoo, Rukhsana Bangash Assembly members and a large number of notables and PPP workers.
Earlier, AJK Assembly in a special session elected him  Prime Minister with a majority vote of 35 against a candidate of  Pakistan Muslim League (N) Raja Farooq Haider who secured 11 votes.
Besides Pakistan Peoples Party, All Jammu Kashmir Muslim Conference, MQM, Jamiat Ulema-e- Islam Pakistan and Muslim League (Q) also voted for him  thus proving  of his   massive  support   in    Azad Jammu  and Kashmir.
Leader of   Pakistan  Muslim League (N)   and former Prime Minister Raja Farooq Haider facilitated him on getting elected as Prime Minister and lauded his services for the State.
Outgoing Prime Minister Sardar Attique Ahmad Khan while congratulating him assured his full support to the new government and hoped that Ch. Majeed will work  hard for  well -being of the people and acceleration of the liberation movement of  the Indian occupied territory.
Prime Minister Ch. Abdul Majeed in a speech after getting  elected thanked all political parties and members of the Assembly for reposing confidence in him. 
He  said  “I will  work with  complete honesty  and expect the others to do the  same.” 
The newly elected prime minister of Azad Jammu and Kashmir  said  he would take steps to ensure austerity  in the state   and provide relief to downtrodden people.
The  AJK prime minister announced on the occasion to impose   ban on foreign tours of politicians and bureaucrats and said no officer would be allowed to cross Kohala Bridge without the permission of the government.
He   said every effort would be made to provide relief to the people who  suffered during the floods in 2005. 
He    said the elections held recently in Azad Jammu and Kashmir were free, fair and impartial.
After taking oath as Prime Minister  he  was presented a Guard of Honour  by a smartly  turned out contingent of Azad Kashmir police on Assembly premises. He was then taken to Prime Minister House where he  was congratulated by political leaders and party workers.
Ch. Muhammad Yaseen  was appointed senior minister  who took oath in the  after the Prime Minister. 
The names of the other members of the cabinet will be announced soon.