Monday, August 8, 2011

بھارتی کشمیر: فرضی جھڑپ میں ہلاک ہونے والا ذہنی مریض تھا، دو فوجی گرفتار 

بھارتی فوج نے اتوار کے روز یہ دعویٰ کیا تھا کہ اُس نے مقامی پولیس ک
ے عسکری مخالف اسپیشل آپریشنز گروپ (ایس او جی)کے ساتھ ایک آپریشن کے دوران لشکرِ طیبہ کے ایک ڈویژنل کمانڈر اور اُس کے ساتھی کو ہلاک کیا ہے۔

ہلاک شدہ عسکری کمانڈر کی شناخت گجرانوالا پاکستان کے شہری، ابو عثمان کے طور پر کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ وہ سورن کوٹ علاقے میں کئی برس سے سرگرم تھا۔

مقامی پولیس کو اُس کی لاش سونپتے ہوئے یہ رپورٹ درج کرائی گئی تھی کہ ہلاک ہونے والے دوسرے عسکریت پسند کی لاش کو موصلہ دھار بارش کے دوران پانی کا ایک تیز ریلا بہا کر لے گیا۔یہ بھی کہا گیا تھا کہ عسکریت پسندوں کے استعمال میں دوسرے ہتھیار پانی میںٕ بہہ کر ایک گہری کھائی میں گر گئے۔

ہلاک شدہ شخص کی لاش پہلے مقامی مسلمانوں کو سونپی گئی تھی، لیکن اُنھوں نے اُس کی تجہیز و تکفین کرنے سے انکار کیا۔

پوسٹ مارٹم کی رپورٹ سے یہ راز افشاع ہوگیا کہ جِس شخص کو ہلاک کرکے لشکرِ طیبہ کا اعلیٰ عسکری کمانڈر جتلایا گیا تھا وہ دراصل ایک ہندو ذہنی مریض تھا جسے سپاہیوں نے قریبی قصبے راجوڑی کے ایک بازار میں دیکھا تھا جہاں سے اُسے پکڑ کر سرحدی علاقے میں لے گئے اور پھر فرضی جھڑپ کے دوران اُسے ہلاک کیا گیا۔

دوسپاہیوں کو گرفتار کیا گیا ہے جِن میں سے ایک کا تعلق علاقائی فوج اور دوسرے کا ایس او جی کے ساتھ ہے۔

گذشتہ سال بھارتی کشمیر میں تین مقامی مسلمان نوجوانوں کو فوج میں ملازمت فراہم کرنے کا لالچ دے کر کنٹرول لائن پر لے جا کر فرضی جھڑپ کے دوران ہلاک کرنے کے واقعے پر بڑے پیمانے پر پُرتشدد مظاہرے ہوئے تھے۔

اِس سے قبل بھی شہریوں کو فرضی جھڑپ کے دوران ہلاک کرنے کے کئی واقعات پیش آئے ہیں۔

Friday, August 5, 2011


’زیرحراست شہریوں کی زندگیوں کو سخت خطرہ‘

بلوچستان میں لاپتہ ہونے والے افراد کی گولیوں سے چھننی اور تشدد زدہ لاشیں ملنے کے واقعات میں تیزی آئی ہے: ایمنسٹی
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں دس زیرحراست شہریوں کی رہائی کے لیے انٹرنیٹ پر ایک ہنگامی اپیل جاری کی ہے۔
تنظیم کے مطابق زیر حراست شہریوں کی زندگیاں سخت خطرے میں ہیں۔
بلوچستان میں فرنٹیئر کور کے ترجمان مرتضیٰ بیگ نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اس الزام کو مسترد کر دیا ہے۔
ترجمان نے رپورٹ کو غلط اور بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایف سی نے خضدار ضلع میں یا کسی اور علاقے میں ایسی کوئی کارروائی نہیں کی اور نہ کوئی بندہ ایف سی کی حراست میں ہے۔
ایف سی نے خضدار ضلع میں یا کسی اور علاقے میں ایسی کوئی کارروائی نہیں کی اور نہ کوئی بندہ ایف سی کی حراست میں ہے
مرتضیٰ بیگ
اسلام آباد سے نامہ نگار احمد رضا کے مطابق ایمنسٹی نے دنیا بھر کے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ ان افراد کی زندگیاں بچانے کے لیے پاکستان کے وزیر اعظم، وزیر داخلہ رحمن ملک اور بلوچستان کے وزیر اعلیٰ سردار اسلم رئیسانی کو تحریری اپیلیں بھیجیں۔
تنظیم کے مطابق ان میں عتیق محمد قلندرانی، خلیل الرحمن قلندرانی، وسیم رحمن، نثار احمد گرگناری، آفتاب قلندرانی، نصیب رحمن قلندرانی، محمد رحیم خان قلندرانی، ڈاکٹر محمد طاہر قلندرانی، فدا احمد قلندرانی اور ندیم قلندرانی شامل ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں تعینات نیم فوجی ادارے فرنٹیئر کور نے اٹھارہ فروری کو ضلع خضدار کے قصبے توتک میں سرچ آپریشن کے دوران ان دس افراد سمیت انتیس بلوچوں کو حراست میں لیا تھا۔
تنظیم کے مطابق حراست میں لیے گئے افراد میں سے اٹھارہ افراد کو تو بعد میں رہا کر دیا گیا لیکن ایک زیر حراست نوجوان مقصود قلندرانی کی تشدد زدہ لاش سولہ جولائی کو کوئٹہ کے قریب جبلِ نور کے علاقے سے برآمد ہوئی اور پولیس کے مطابق اس کی جیب سے ایک تحریر بھی ملی جس میں کہا گیا تھا کہ وہ بلوچستان لبریشن آرمی کا ایجنٹ تھا۔
بلوچستان میں چوبیس اکتوبر سال دو ہزار دس سے اکتیس مئی سال دو ہزار گیارہ کے دوران تہتر افراد لاپتہ ہوئے جبکہ ایک سو آٹھ افراد کو ممکنہ طور پر ماورائے عدالت قتل کیا گیا جن میں بلوچ سیاسی کارکن، صحافی، اساتذہ اور وکلاء شامل تھے
ایمنسٹی انٹرنیشنل
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ مقصود قلندرانی بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد گروپ کا کارکن تھا۔
اپیل میں کہا گیا ہے کہ مقصود قلندرانی کے ساتھ حراست میں لیے گئے ان دس افراد کا اب تک کچھ پتہ نہیں چل پایا ہے کہ انہیں کہاں رکھا گیا ہے اور مقصود کی موت کے بعد خطرہ ہے کہ کہیں ان افراد کا بھی وہی انجام نہ ہو۔
’یہ افراد بھی جن میں سے زیادہ تر کا تعلق قلندرانی قبیلے سے ہے، حراست کے دوران اذیتوں اور ماورائے عدالت قتل کے خطرے سے دوچار ہیں۔‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل کہتی ہے کہ بلوچستان میں لاپتہ ہونے والے افراد کی گولیوں سے چھلنی اور تشدد زدہ لاشیں ملنے کے واقعات میں تیزی آئی ہے جس سے علاقے میں ’مارو اور پھینک دو‘ آپریشنز کے بڑھتے ہوئے رجحان کا پتہ چلتا ہے۔
تنظیم کے مطابق بلوچستان میں چوبیس اکتوبر سال دو ہزار دس سے اکتیس مئی سال دو ہزار گیارہ کے دوران تہتر افراد لاپتہ ہوئے جبکہ ایک سو آٹھ افراد کو ممکنہ طور پر ماورائے عدالت قتل کیا گیا جن میں بلوچ سیاسی کارکن، صحافی، اساتذہ اور وکلاء شامل تھے۔
شورش زدہ بلوچستان میں پاکستانی ریاست اور بلوچ قوم پرستوں کے درمیان محاذ آرائی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں جن میں دونوں طرف کے لوگ ملوث ہیں
ایمنسٹی
’اس عرصے میں ماورائے عدالت قتل ہونے والے ان ایک سو آٹھ افراد میں سے کم از کم ترانوے افراد وہ تھے جو قتل سے پہلے لاپتہ ہوگئے تھے۔ مقتولین کے ورثاء اور بلوچ کارکن ان ہلاکتوں کا الزام فرنٹیئر کور پر ہی لگاتے ہیں۔‘
ایمنسٹی کہتی ہے کہ شورش زدہ بلوچستان میں پاکستانی ریاست اور بلوچ قوم پرستوں کے درمیان محاذ آرائی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں جن میں دونوں طرف کے لوگ ملوث ہیں۔
تنظیم نے اپنی ہنگامی اپیل میں دنیا بھر کے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ پاکستانی اور بلوچستان کی حکومتوں کو خطوط لکھ کر ان سے مطالبہ کریں کہ وہ ان دس بلوچوں کی حراست کی فوری اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کرائیں اور اس کے ذمہ داروں کو سزا دلوائیں۔
ساتھ ہی ان افراد کو یا تو فی الفور رہا کیا جائے یا انہیں کسی اعلانیہ سرکاری قید خانے میں منتقل کیا جائے اور اگر ان کے خلاف کوئی الزامات ہیں تو ان پر باضابطہ طور پر فرد جرم عائد کی جائے۔
یکہ توت پولیس کا روزنامہ پاکستان کے رپورٹر پر تشدد موبائل فون اور دفتر کے شناختی کارڈ سے محروم کر دیا بعد ازاں موبائل قبرستان میں چھوڑ کرفرار ہو گئے یکہ توت پولیس کے اہلکاروں اے ایس آئی ہمت گل اور ڈرائیور نذیر نے روزنامہ پاکستان کے رپورٹر آصف شہزاد کو رنگ روڈ پشاور میں ہزارخوانی کے مقام پرروک کر کہا کہ ہم نے آپکو آوازدی مگر آپ رکے نہیں اور اسکے بعد گریبان سے پکڑ کر اس پرتشدد شروع کردیا۔ صحافی کی جانب سے اپنی پہچان کروانے پر انہوں نے گالیاں دیں اورکہا کہ جو کر سکتے ہو کر لو جبکہ صحافی آصف شہزاد سے موبائل اور روزنامہ پاکستان کا دفتری کارڈ پولیس موبائل کے ڈرائیور نے چھین لیا کہ تھانے آ کرلے جانا۔ تھانے رابطہ کرنے کے بعد پولیس اہلکاروں نے موبائل فون قریبی قبرستان میں پھینک دیا جو کہ بعد ازاں ایک شہری نے اٹھایا اور صحافی کو اپنے ہی موبائل کی دوبارہ 500روپے قیمت ادا کرنی پڑی۔ پولیس سے رابطہ کرنے پر ایس ایچ او بشیرداد نے اپنے اہلکاروں پر پردہ ڈالتے ہوئے کہا کہ وہ بے گناہ ہیں اور اس واقعہ میں ان کے اہلکاروں کا کئی کوئی قصورنہیں ہے۔