Sunday, August 21, 2011


Indian Govt. Confirms Mass Graves in Indian Kashmir

Indian authorities have confirmed the existence of mass graves in Indian-controlled Kashmir, containing bodies of more than 2,000 people apparently killed in a long-running separatist conflict.
India's Jammu and Kashmir State Human Rights Commission released a report Sunday saying a three-year investigation has uncovered 2,156 unidentified bodies in 38 sites in the region.
Indian authorities conducted the inquiry in response to allegations that Indian security forces have committed rights abuses in fighting a more than two-decade-long Muslim separatist insurgency.
Rights groups accuse Indian security personnel of killing Kashmiri civilians in staged gun battles and passing them off as militants when handing the bodies to residents for burial. The Indian government commission did not confirm that allegation. It called for DNA profiling to identify the bodies discovered in the mass graves.
Rights activists say at least 8,000 people have gone missing in Indian Kashmir since the separatists began fighting in 1989 for independence from Hindu-majority India or a merger with Muslim-majority Pakistan. Rebel attacks and Indian government crackdowns have killed at least 50,000 people.
Kashmir is divided between India and Pakistan and claimed in full by both.

کشمیر: اجتماعی قبروں کی سرکاری تصدیق

کشمیر
گزشتہ دو دہائیوں میں کشمیر میں ہزاروں نوجوان لاپتہ ہوئے ہیں
بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں حکومت کے حقوق انسانی کمیشن نے اعتراف کیا ہے کہ وادی میں اڑتیس مقامات پر دو ہزار ایک سو چھپن افراد اجتماعی قبروں میں دفن ہیں۔
بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں گزشتہ اکیس سال کے دوران یہ پہلا موقع ہے کہ انسانی حقوق کے سرکاری کمیشن نے وادی میں اجتماعی قبروں کی موجودگی کا انکشاف کیا ہے اور کہا ہے کہ ان میں دو ہزار سے زائد افراد کو دفن کیا گیا ہے۔
پچھلے چھ سال سے انصاف کی جنگ لڑرہی ستائیس سالہ تسلیمہ کے لیے یہ انکشاف حوصلہ افزا ہے۔ ان کا کہنا ہے ’اب انصاف میں دیر نہیں لگنی چاہیئے۔‘
دو ہزار سات میں تسلیمہ کے خاوند نذیر احمد ڈیکہ کی لاش ضلع گاندربل کی ایک گمنام قبر سے برآمد ہوئی تھی۔
جنوبی کشمیر کے ڈکسم کوکر ناگ کے رہنے والے نذیر احمد ڈیکہ کو پولیس کے سپیشل آپریشن گروپ نے سولہ فروری دو ہزار چھ کو سرینگر سے اغوا کروایا اور گاندربل میں ایک فرضی جھڑپ کے دوران انہیں ہلاک کرکے پاکستانی شدت پسند کے طور پر گاندربل میں دفن کیا گیا۔
تسلیمہ اُن سینکڑوں خواتین میں سے ہیں جن کے خاوند یا بیٹے لاپتہ ہوگئے ہیں۔ تسلیمہ کا معاملہ اس لیے مختلف ہے کہ ایک سال اندر ہی انہیں معلوم ہوا کہ ان کے خاوند کو فرضی جھڑپ میں ہلاک کیا گیا۔
تسلیم
تسلیم کے خاوند کو فرضی جھڑپ میں مار دیا گیا تھا
اب سوال ہے کہ اُن دو ہزار ایک سو چھپن لاشوں کی شناخت کیسے کی جائے جن کے بارے میں سرکاری کمیشن کا کہنا ہے کہ انہیں شمالی کشمیر کے اڑتیس مقامات پر انہیں اجمتاعی قبروں میں دفن کیا گیا۔
ریاستی حقوق انسانی کمیشن کے سربراہ جسٹس بشیر احمد نے بیی ابھی حکومت کو رپورٹ پیش نہیں کی گئی ہے، تاہم وہ اس سلسلے میں حکومت کو جوابدہ بنانے کے لیے سرگرم ہیں۔ ان کا کہنا ہے: ’کافی طویل تفتیش کے بعد ہم کچھ طے کرپائے ہیں۔ اب شناخت کا مسئلہ ہے، ہمیں امید ہے کہ ہم انصاف فراہم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔‘
قابل ذکر ہے دو ہزار سے دو ہزار آٹھ میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم مقامی اداروں نے ایک جائزہ رپورٹ جاری کی جس میں بتایا گیا کہ شمالی کشمیر میں ایسی درجنوں اجتماعی قبریں ہیں جن میں دو ہزار آٹھ سو افراد کو دفن کیا گیا ہے۔
سری نگر سے ایک سو دس کلومیٹر دور کوکر ناگ کے رہنے والے نذیراحمد ڈیکہ اور اس کے چار پڑوسیوں کو پولیس کے سپیشل آپریشن گروپ نے ایک اعانت کار فاروق پڈرو کے ذریعہ اغوا کروایا اور گاندربل کے قریب ایک فرضی میں ہلاک کرنے کے بعد انہیں مقامی لوگوں کے سپرد کیا گیا۔ ان سے کہا گیا کہ وہ پانچوں غیرمقامی شدت پسند تھے جو تصادم میں مارے گئے۔
پولیس تفتیش کے دوران جب فرضی جھڑپ کا انکشاف ہوا تو حکومت نے چار پولیس افسروں اور کئی اہلکاروں کو گرفتار کیا۔ لیکن اب معاملہ عدالت عالیہ میں ہے۔
اپنے والدین اور سسرال والوں کی بے توجہی کی شکار تسلیمہ کہتی ہیں: ’میرے دو بچے ہیں۔ میرے خاوند کا کیا قصور تھا۔ اگر حکومت اب مانتی ہے کہ وہ بے قصور تھا، تو مجھے انصاف ملنے میں دیر کیوں ہو رہی ہے۔‘
مقامی انسانی حقوق کے اداروں نے حکومت کے اس اقدام کو سراہا ہے۔ لیکن انہیں خدشہ ہے کہ حکومت حقوق انسانی کمیشن کی سفارشات کو ماضی کی طرح نظرانداز کرے گی۔ کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی خرم پرویز کا کہنا ہے کہ ’حقوق انسانی کمیشن کی سفارشات پر حکومت نے عمل نہ کیا تو وہ عدالت سے رجوع کرینگے۔ یہ تو ایک لمبی لڑائی ہے، اور ہم یہ لڑنے کے لئے تیار ہیں۔‘

Saturday, August 20, 2011


UN Deplores Continued Human Rights Violations in Pakistan

The United Nations is urging Pakistan to investigate human rights violations, including several recent attacks on journalists.
A spokesman for the U.N. human rights commissioner, Rupert Colville, said Friday the U.N. agency has recently received reports on the killing of a journalist in Baluchistan province and the disappearance of another in the North Waziristan tribal region .
Colville said the attacks are the latest in a series of reported abductions, disappearances and extrajudicial killings in Pakistan since 2007.
Speaking to VOA, Colville said media rights groups name Pakistan as one of the most dangerous places, if not the most dangerous place, for journalists.
He cited the Committee to Protect Journalists as saying that at least 16 reporters were killed last year, while nine others have been killed this year. Colville said Pakistani authorities have failed to fully investigate any of the cases.
The U.N. human rights spokesman said that in Baluchistan alone, there were reports that 25 people — including journalists, writers, students and human rights defenders — had been extrajudicially killed during the first four months of this year.
In June, the Human Rights Commission of Pakistan said that 140 people, including journalists, were found dead between July 2010 and May 2011 after initially being reported missing.

Thursday, August 18, 2011


بیٹے کی حراستی گمشدگی پرمہتابہ بیگم 2دہائیوں سے انصاف کی متلاشی
کریک ڈائون کے دوران بھری بھیڑ میںبی ایس ایف نے گرفتارکیاتھا،پولیس نے ایف آئی آر بھی درج نہیں کیا


سرسمیٹے مہتابہ بیگم آج بھی اپنے اکلوتے فرزند کی تلا میںینگر/ اپنے چہرے کی جھریوں میں دو دہائیوں کا درد  سرگرداں ہے۔ 21سال کے طویل اور صبر آزما انتظار و تلاش بھی اس کی انکھوں کو خشک کرنے میں ناکام رہے اور آج بھی اپنے لخت جگر کا ذکر چھڑتے ہی اسکے آنکھوں سے اشکوں کی جھڑی لگ جاتی ہے ۔ 14 اکتوبر1990کی تاریخ کرہامہ کپوارہ کی مہتابہ بیگم کیلئے ایک ایسا کرب لے کر آئی کہ ہنوزاس کے درد کا مداوانا ممکن نظر آتا ہے۔ 14اکتوبر کوکرہامہ کے گاؤں کابی ایس ایف کی 76ویں اور 56 ویں بٹالین کے ذریعہ کریک ڈاون ہوا اورمہتابہ بیگم کے اکلوتے نور چشم28 سالہ محمد ایوب خان کو لوگوں کے جم غفیر کے درمیان گرفتار کر لیا گیا ۔ پیشہ سے ٹانگہ بان محمد ایوب کرہامہ سے کپوارہ تک ٹانگہ چلا کر اپنی 3بیٹیوں ،ایک بیٹے ،بیوی اور بیوہ ماں کی کفالت کرتا تھا ۔ مہتابہ بیگم کے مطابق کریک ڈاون کے دوران اسکے بیٹے سمیت مزید 3 افراد کو گرفتار کیا گیا لیکن ان تین افراد کو اگر چہ بعد میں رہا کیاگیا تاہم محمد ایوب خان کا کوئی سراغ نہ مل سکا ۔اگلے روز صبح سویرے مہتابہ بیگم گاؤں کے چند بزرگوں کو لے کر باترگام میں واقع بی ایس ایف کیمپ میں اپنے بیٹے کے متعلق معلومات حاصل کرنے گئیں لیکن مہتابہ بیگم کی دنیا تب اجڑ گئی جب بی ایس ایف نے محمد ایوب کی گرفتاری سے ہی انکار کر دیا اور اسی کے ساتھ مہتابہ بیگم کی وہ تلاش شروع ہوئی جو آج تک ختم نہیں ہوئی اور شاید اب اس کی موت کیساتھ ہی اختتام پذیر ہو ۔ بیٹے کی جدائی کے غم میں نڈھال مہتابہ نے پولیس سے رابطہ کیا لیکن اس دکھیاری کی مصیبت کی داد رسی یہاں پر بھی نہ ہوئی اور پولیس نے ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کیا۔مہتابہ بیگم کے مطابق انہوں نے عدالت کا رخ کیا تو عدالت نے کپوارہ کے جوڈیشل مجسٹریٹ کے ذریعہ معاملہ کی تفتیش کروائی جس دوران یہ بات سامنے آئی کہ محمد ایوب کو بی ایس ایف کی76اور56ویں بٹالین نے ہی گرفتار کیا اور زیر حراست ہی اسکی گمشدگی رونما ہوئی۔ تفتیشی رپورٹ قبول کرتے ہوئے عدالت عالیہ نے پولیس کو اس کیس کے ضمن میں ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت جاری کی اور تین سال بعد 1993میں محمد ایوب کی زیر حراست گمشدگی کے بارے میں ایف آئی آر زیر نمبر01/1993درج کی گئی۔لیکن ملوث بی ایس ایف اہلکاروں کیخلاف کوئی کاروائی عمل میں نہ لائی گئی کیونکہ نئی دلی سے ان اہلکاروں کیخلاف کاروائی کی اجازت نہیں دی گئی ۔مہتابہ بیگم نے ریاست اور بیرون ریاست ہر جیل کی خاک چھان ماری کہ کہیں پر اس کو اپنے اکلوتے بیٹے کا کوئی سراغ مل سکے ۔ مہتابہ کے مطابق’’کرہامہ کپوارہ میں ہماری کل2کنال اراضی موجود تھی لیکن اپنے بیٹے کی تلاش میں، میں نے وہ بیچ ڈالی ،مجھے امید تھی کہ میرا بیٹا واپس مل جائے گا تو میرا چین و سکون بھی لوٹ آئے گا،مجھ دکھیاری کے پیروں میں چھالے تک پڑ گئے لیکن مجھے اپنے بیٹے کا دیدار نصیب نہ ہوسکا‘‘ ۔ ایک طرف اپنے بیٹے کی تلاش دوسری طرف اسکے پسماندہ عیال کو پالنے کیلئے مہتابہ بیگم نے گھروں میں چاول چننے اور دوسرے چھوٹے موٹے کام کرنے شروع کردیئے ۔ہیرا نگر،کٹھوعہ،ریاسی، ادھم پور،کوٹ بلوال غرض کونسی ایسی جیل ہے جہاں مہتابہ اپنے ایوب کی تلاش میں نہ گئی ہولیکن ہر بار اسے ناکامی کا ہی منہ دیکھنا پڑا۔ اس اثنا میں مہتابہ بیگم نے ریاستی انسانی حقوق کمیشن کے سامنے اپنی عرض داشت پیش کی ۔جنہوں نے تفتیش کے بعد یہ ماناکہ محمد ایوب کو بی ایس ایف نے گرفتاری کے بعد لاپتہ کردیا اور اس ضمن میں مہتابہ بیگم کے حق میں ایکس گریشیا واگذار کرنے کی بھی سفارش کی لیکن مہتابہ بیگم کا کہنا ہے کہ اسکے اکلوتے بیٹے کے سامنے پیسوں کی کیا وقعت ؟ محمد ایوب کی جدائی میں مہتابہ بیگم کے سامنے ’صبر ایوبؑ ‘کے سوا کوئی چارہ نہیں۔لیکن مہتابہ کو یقین ہے کہ ایک دن اس کو انصاف ضرور ملے گا اور اسکے بیٹے کے مجرموں کو دردناک سزا ملے گی ،چاہے وہ دن قیامت کا ہی دن کیوں نہ ہو؟