کشمیر: اجتماعی قبروں کی سرکاری تصدیق

گزشتہ دو دہائیوں میں کشمیر میں ہزاروں نوجوان لاپتہ ہوئے ہیں
بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں حکومت کے حقوق انسانی کمیشن نے اعتراف کیا ہے کہ وادی میں اڑتیس مقامات پر دو ہزار ایک سو چھپن افراد اجتماعی قبروں میں دفن ہیں۔
بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں گزشتہ اکیس سال کے دوران یہ پہلا موقع ہے کہ انسانی حقوق کے سرکاری کمیشن نے وادی میں اجتماعی قبروں کی موجودگی کا انکشاف کیا ہے اور کہا ہے کہ ان میں دو ہزار سے زائد افراد کو دفن کیا گیا ہے۔
پچھلے چھ سال سے انصاف کی جنگ لڑرہی ستائیس سالہ تسلیمہ کے لیے یہ انکشاف حوصلہ افزا ہے۔ ان کا کہنا ہے ’اب انصاف میں دیر نہیں لگنی چاہیئے۔‘
دو ہزار سات میں تسلیمہ کے خاوند نذیر احمد ڈیکہ کی لاش ضلع گاندربل کی ایک گمنام قبر سے برآمد ہوئی تھی۔
جنوبی کشمیر کے ڈکسم کوکر ناگ کے رہنے والے نذیر احمد ڈیکہ کو پولیس کے سپیشل آپریشن گروپ نے سولہ فروری دو ہزار چھ کو سرینگر سے اغوا کروایا اور گاندربل میں ایک فرضی جھڑپ کے دوران انہیں ہلاک کرکے پاکستانی شدت پسند کے طور پر گاندربل میں دفن کیا گیا۔
تسلیمہ اُن سینکڑوں خواتین میں سے ہیں جن کے خاوند یا بیٹے لاپتہ ہوگئے ہیں۔ تسلیمہ کا معاملہ اس لیے مختلف ہے کہ ایک سال اندر ہی انہیں معلوم ہوا کہ ان کے خاوند کو فرضی جھڑپ میں ہلاک کیا گیا۔

تسلیم کے خاوند کو فرضی جھڑپ میں مار دیا گیا تھا
اب سوال ہے کہ اُن دو ہزار ایک سو چھپن لاشوں کی شناخت کیسے کی جائے جن کے بارے میں سرکاری کمیشن کا کہنا ہے کہ انہیں شمالی کشمیر کے اڑتیس مقامات پر انہیں اجمتاعی قبروں میں دفن کیا گیا۔
ریاستی حقوق انسانی کمیشن کے سربراہ جسٹس بشیر احمد نے بیی ابھی حکومت کو رپورٹ پیش نہیں کی گئی ہے، تاہم وہ اس سلسلے میں حکومت کو جوابدہ بنانے کے لیے سرگرم ہیں۔ ان کا کہنا ہے: ’کافی طویل تفتیش کے بعد ہم کچھ طے کرپائے ہیں۔ اب شناخت کا مسئلہ ہے، ہمیں امید ہے کہ ہم انصاف فراہم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔‘
قابل ذکر ہے دو ہزار سے دو ہزار آٹھ میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم مقامی اداروں نے ایک جائزہ رپورٹ جاری کی جس میں بتایا گیا کہ شمالی کشمیر میں ایسی درجنوں اجتماعی قبریں ہیں جن میں دو ہزار آٹھ سو افراد کو دفن کیا گیا ہے۔
سری نگر سے ایک سو دس کلومیٹر دور کوکر ناگ کے رہنے والے نذیراحمد ڈیکہ اور اس کے چار پڑوسیوں کو پولیس کے سپیشل آپریشن گروپ نے ایک اعانت کار فاروق پڈرو کے ذریعہ اغوا کروایا اور گاندربل کے قریب ایک فرضی میں ہلاک کرنے کے بعد انہیں مقامی لوگوں کے سپرد کیا گیا۔ ان سے کہا گیا کہ وہ پانچوں غیرمقامی شدت پسند تھے جو تصادم میں مارے گئے۔
پولیس تفتیش کے دوران جب فرضی جھڑپ کا انکشاف ہوا تو حکومت نے چار پولیس افسروں اور کئی اہلکاروں کو گرفتار کیا۔ لیکن اب معاملہ عدالت عالیہ میں ہے۔
اپنے والدین اور سسرال والوں کی بے توجہی کی شکار تسلیمہ کہتی ہیں: ’میرے دو بچے ہیں۔ میرے خاوند کا کیا قصور تھا۔ اگر حکومت اب مانتی ہے کہ وہ بے قصور تھا، تو مجھے انصاف ملنے میں دیر کیوں ہو رہی ہے۔‘
مقامی انسانی حقوق کے اداروں نے حکومت کے اس اقدام کو سراہا ہے۔ لیکن انہیں خدشہ ہے کہ حکومت حقوق انسانی کمیشن کی سفارشات کو ماضی کی طرح نظرانداز کرے گی۔ کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی خرم پرویز کا کہنا ہے کہ ’حقوق انسانی کمیشن کی سفارشات پر حکومت نے عمل نہ کیا تو وہ عدالت سے رجوع کرینگے۔ یہ تو ایک لمبی لڑائی ہے، اور ہم یہ لڑنے کے لئے تیار ہیں۔‘
No comments:
Post a Comment