Sunday, September 4, 2011



’2007میں کشمیرحل پر اتفاق ہوا تھا‘
منموہن اور مشرف متفق ہوئے تھے،وکی لیکس کا انکشاف




واشنگٹن//وکی لیکس نے انکشاف کیا ہے مشرف کے دور میںمنموہن سنگھ تنازعہ کشمیر حل کر نے پر آمادہ ہوچکے تھیــ اوروزیر اعظم ہندنے مشرف فارمولہ تسلیم کرتے ہوئے وادی میں فوجی انخلاء پر بھی اتفاق کر لیاتھا۔ خفیہ معلومات کو منظرعام پر لانے والی امریکی ویب سائٹ ’’وکی لیکس ’’ نے ایک بار پھر اہم ترین انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ 2007میں بھارت اور پاکستان کشمیر مسئلے کے حل کے انتہائی قریب پہنچ چکے تھے اور دونوں ملکوں کی سرکاروں نے پس پردہ کوششوں کے طفیل کشمیر مسئلہ کے حل پر اتفاق رائے قائم کر لیا تھا۔ وکی لیکس نے کہا ہے کہ اس بات کا خلاصہ خود بھارت کے وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اپریل 2008میں نئی دلی کا دورہ کرنے والی امریکی نمائندگان کی امور خارجہ کی کمیٹی کے چیئر مین ہاواڈ برمن کے ساتھ نئی دلی میں ملاقات کے دوران کیا تھا۔ ڈاکٹر سنگھ نے برمن کو بتایا کہ فروری 2007 سے پہلے جب جنرل مشرف پاکستان کے صدر تھے دونوں ملک کشمیر کے مسئلے کے حل کے بہت قریب پہنچ چکے تھے۔ وکی لیکس کے مطابق ڈاکٹر منموہن سنگھ نے کہا تھا’’ہم پس پردہ چینلوں کی وساطت سے جنرل مشرف کے ساتھ اتفاق رائے قائم کرنے کے قریب پہنچ گئے تھے اورہم نے اس بات پر بھی اتفاق کر لیا تھا کہ کشمیر کا حل غیرسرحدی بنیادوں پر کیا جائے جس میں تجارت اور آزادنہ آواجاہی بھی شامل ہو‘‘۔وزیر اعظم نے مزید بتایا تھا کہ بھارت جمہوری پاکستان میں امن ، استحکام اور مضبوطی کا خواہاں ہے اور وہ سرزمین پاکستان کے ایک انچ پر بھی اپنا حق نہیں جتا رہا ہے۔ واضح رہے جنرل مشرف نے اپنے دور اقتدار کے آخری مرحلے پر پوری دنیا کو اس وقت حیران کر دیاتھا جب اس نے کشمیر مسئلے کو حل کرنے کیلئے اپنی طرف سے 4نکاتی فارمولہ پیش کیا جس میں کشمیر کے دونوں خطوں سے فوج کی واپسی اور زیادہ سے زیادہ خود مختیاری کے علاوہ دونوں خطوں میں مشترکہ انتظام قائم کرنا شامل تھا۔ اگر چہ بھارت نے جنرل کے فارمولے کی کھل کر حمایت نہیں کی تھی تاہم وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان سرحدوں کو غیر موثر بنانے کی وکالت کی تھی جس سے اس بات کا عندیہ ملتا تھا کہ’’ بیک چینل‘‘ کے ذریعے دونوں ملک کشمیر تنازعے کے حل میں پیش رفت کر چکے ہیں۔ چنانچہ جہاں مشرف فارمولے کو عالمی سطح پر حمایت حاصل ہوئی تاہم ریاست میں بعض علیحدگی پسند لیڈران نے فارمولے کی کھلم کھلا مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کا کوئی بھی فارمولہ قابل قبول نہیں ہوگا۔


No comments:

Post a Comment