Tuesday, July 26, 2011



MUZAFFARABAD July 26 .President Pakistan Peoples Party AJK and Senior Parliamentarian Ch. Abdul Majeed took oath as 11th Prime Minister of The Azad Government of The State of Azad Jammu Kashmir here on Tuesday at a ceremony held on the premises of the Legislative Assembly. President AJK Raja Zulqarnain Khan administered the oath to him. The ceremony was attended by Secretary General Pakistan Peoples Party Jehangir Badar, Federal Minister Kashmir &  Gilgit and Baltistan  Affairs Mian Manzoor Watoo, Rukhsana Bangash Assembly members and a large number of notables and PPP workers.
Earlier, AJK Assembly in a special session elected him  Prime Minister with a majority vote of 35 against a candidate of  Pakistan Muslim League (N) Raja Farooq Haider who secured 11 votes.
Besides Pakistan Peoples Party, All Jammu Kashmir Muslim Conference, MQM, Jamiat Ulema-e- Islam Pakistan and Muslim League (Q) also voted for him  thus proving  of his   massive  support   in    Azad Jammu  and Kashmir.
Leader of   Pakistan  Muslim League (N)   and former Prime Minister Raja Farooq Haider facilitated him on getting elected as Prime Minister and lauded his services for the State.
Outgoing Prime Minister Sardar Attique Ahmad Khan while congratulating him assured his full support to the new government and hoped that Ch. Majeed will work  hard for  well -being of the people and acceleration of the liberation movement of  the Indian occupied territory.
Prime Minister Ch. Abdul Majeed in a speech after getting  elected thanked all political parties and members of the Assembly for reposing confidence in him. 
He  said  “I will  work with  complete honesty  and expect the others to do the  same.” 
The newly elected prime minister of Azad Jammu and Kashmir  said  he would take steps to ensure austerity  in the state   and provide relief to downtrodden people.
The  AJK prime minister announced on the occasion to impose   ban on foreign tours of politicians and bureaucrats and said no officer would be allowed to cross Kohala Bridge without the permission of the government.
He   said every effort would be made to provide relief to the people who  suffered during the floods in 2005. 
He    said the elections held recently in Azad Jammu and Kashmir were free, fair and impartial.
After taking oath as Prime Minister  he  was presented a Guard of Honour  by a smartly  turned out contingent of Azad Kashmir police on Assembly premises. He was then taken to Prime Minister House where he  was congratulated by political leaders and party workers.
Ch. Muhammad Yaseen  was appointed senior minister  who took oath in the  after the Prime Minister. 
The names of the other members of the cabinet will be announced soon.

Saturday, July 23, 2011


کشیدگی کی وجہ کشمیر، مذاکرات واحد آپشن:گیلانی
بھارت کیساتھ تعلقات کو ایک نئی سمت دینا میری ترجیح، نئی راہیں تلاش کی جائینگی: حناربانی


وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر سمیت دیگرتمام تصفیہ طلب معاملات کو حل کرنے کیلئے ہندوستان اور پاکستان مذاکرات کی میز پر آگئے ہیں اور دونوں ملکوں کے پاس بات چیت کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔اس دوران نئی دلّی دورہ سے قبل وزیرخارجہ پاکستان حنا ربانی کھر نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو نئی سمت دینا ان کی اولین ترجیحات میں شامل ہے ۔ انہوں نے کشمیر امریکن کونسل کے ڈائریکٹر ڈاکٹر غلام نبی فائی کو امریکہ کا باشندہ قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ وہ امریکہ میں دستیاب نظام کے تحت ہی اپنا مسئلہ حل کر سکتے ہیں ۔تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ پاکستان اورہندوستان کواب اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ ممبئی دہشت گردانہ حملوں سے پاک بھارت تعلقات کو یرغمال نہیں بنایا جا سکتا۔ برطانیہ میں نامہ نگاروں کے ساتھ بات کرتے ہوئے گیلانی نے کہا کہ مذاکراتی عمل میں تعطل پیدا ہونادونوں ممالک کیلئے کسی بھی لحاظ سے سود مند ثابت نہیں ہو سکتا ۔انہوں نے کہا کہ بات چیت کے سوا ہمسایہ ممالک کے پاس کوئی دوسراآپشن نہیں ہے لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ مسئلہ کشمیر سمیت دیگر معاملات کو حل کرنے کیلئے افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کیا جانا چاہئے ۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ مسئلہ کشمیر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کی بنیادی وجہ ہے لہٰذا جب تک اس دیرینہ تنازعہ کو اس کے پس منظر میں حل کرنے کیلئے اقدامات نہیں اٹھائے جاتے تب تک دونوں ہمسایہ ممالک تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتے ۔انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر دیرینہ حل طلب مسائل میں سے ایک ہے اور کشمیریوں کی حق خود ارادایت کے بارے میں اقوام متحدہ کی کئی قراردادیں موجود ہیں۔انہوں نے کہاکہ کشمیریوں کے بنیادی حقوق کی توثیق کرنا عالمی برادری اور تمام باشعور لوگوں کا بنیادی فریضہ ہے جو انسانی حقوق اور قدروں کو اہمیت دیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ دنیا اب بدل چکی ہے لہٰذا بھارت کو بھی اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہئے کہ طاقت کے بل پر کسی قوم کو زیادہ دیر تک دبایا نہیں جا سکتا ۔گیلانی نے کہا کہ ہندوستان اور پاکستان اب چونکہ نیوکلیائی ہتھیاروں سے لیس ہیں لہٰذا دونوں ممالک کے درمیان کسی بھی طرح کی کشیدگی بر صغیر کے امن و امان کو درہم برہم کر سکتے ہیں۔پاک امریکہ تعلقات سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں وزیر اعظم پاکستان نے کہا کہ ایبٹ آباد آپریشن کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بگڑ گئے تھے تاہم اب صورت حال بہتری کی طر ف گا مزن ہیں ۔انہوں نے کہا کہ دہشت گردی اب صرف علاقائی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ دہشت گر دی کیلئے پا کستان کو موردالزام ٹھرانا سراسر زیادتی ہے کیونکہ پاکستان نے دہشت گردی مخالف کا رروائیوں کے دوران سب سے زیادہ بھاری و جا نی ما لی قربا نیاں دی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ایسے لوگ کسی بھی قیمت پر پاکستان کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے جو مسجدوں اور عوامی مقامات پر دھماکے کر کے معصوم لوگوں کی زندگیوں سے کھلواڑ کر رہے ہیں ۔اس دوران ہند پاک وزرائے خارجہ بات چیت سے قبل حنا ربانی کھر نے ایک انٹر ویو کے دوران یہ واضح کیا کہ وہ کھلے ذہن کے ساتھ بھارت کا دورہ کر رہی ہیں اور مسئلہ کشمیر سمیت دیگر باہمی معاملات پر تبادلہ خیال کرنے کیلئے اپنے ہم منصب ایس ایم کرشنا کے ساتھ ملاقات کر یں گی ۔انہوں نے اس بات کو خوش آئند اور مثبت قرار دیا کہ اب بھارت بھی مذاکرات کیلئے سنجیدہ نظر آ رہا ہے اور یہ کہ بھارت مذاکراتی عمل کو ادارہ جاتی بنانے کا خواہاں ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں بہتری آ رہی ہے اور دونوں ممالک افہام و تفہیم کے ذریعے تصفیہ طلب معاملات کو حل کرنے کیلئے بات چیت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔حنا ربانی نے کہا کہ 26اور27جولائی کو نئی دلی میںبھارتی وزیر خارجہ کے ساتھ جو ان کی بات چیت ہورہی ہے ،اس میں مسئلہ کشمیر ،دہشت گردی اور دیگر باہمی معاملات پر تبادلہ خیال کیا جائے گا اور تعلقات کو فروغ دینے کیلئے بھی نئی راہیں تلاش کی جائیں گی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان روز اول سے ہی مذاکرات کا حامی رہا ہے تاہم دونوں ممالک میں کچھ ایسے عناصر موجود ہیں جو حقیر سیاسی مفادات کیلئے امن عمل کو سبوتاژکرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کیلئے یہ ایک کامیابی ہے کہ اس نے بھارت کو ایک مرتبہ پھر بات چیت کیلئے آمادہ کیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو نئی جہت دینا ان کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ امریکہ میں خفیہ ایجنسی ایف بی آئی کے ذریعے کشمیر امریکن کونسل کے ڈائریکٹر ڈاکٹر غلام نبی فائی کی گرفتاری پر تبصرہ کرتے ہوئے حنا ربانی کھر نے کہا کہ فائی امریکی شہری ہیں اور وہ امریکہ میں دستیاب نظام کے تحت ہی اپنا مسئلہ حل کر سکتے ہیں ۔

PRESIDENT MUSHRAF ,S INTERVIEW TO VOA

Saturday, July 16, 2011


راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس (دستور) نے اسلام آباد پولیس کو 48گھنٹوں کا الٹی میٹم دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ تھانہ کورال پولیس سینئر صحافی سردار ممتاز پر تشدد کر نے والے ملزمان کے خلاف مقدمہ درج اور انہیں گرفتار نہ کیا تو آئی جی پولیس اسلام آباد آفس کے باہر احتجاجی دھرنا دینگے ۔ صحافیوں پر تشدد اور قتل کے بڑھتے ہوئے واقعات آزادی صحافت کو سلب کر نے کے مترادف ہیں ۔ صحافیوں کو اپنے حقوق کے لئے لڑنا ہو گا مرنا ہو گا۔ ان خیالات کااظہا ر آر آئی یو جے (دستور) کے صدر خاور نواز راجہ نے نجی ٹی وی کے سینئر رپورٹر سردار ممتاز پر ہو نے والے تشدد کے خلاف احتجاجی مظاہرے سے خطاب کر تے ہوئے کیا۔

 اس موقع پر کرائم اینڈ کورٹ رپورٹرز ایسو سی ایشن کے سینئر نائب صدر سلطان شاہ ،ا قبال ملک ، الیکٹرانک میڈیا ایسو سی ایشن کے صدر بابر ملک نے بھی خطاب کیا۔ احتجاجی مظاہرے میں صحافیوں نے جعلی ہائوسنگ سوسائٹیوں کی کرپٹ انتظامیہ کے خلاف نعرے بازی کی اور مطالبہ کیا کہ سردار ممتاز کو تشدد کا نشانہ بنا نے ، انہیں حبس بے جا میں رکھنے والے ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر کے انہیں گرفتار کیا جائے ۔

 آر آئی یو جے (دستور) نے پولیس کی جانب سے ایف آئی آر درج نہ کر نے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ اسلام آباد پولیس نے 48گھنٹوں میں مقدمہ درج کر کے ملزمان گرفتار نہ کئے تو آئی جی پولیس اسلام آباد آفس کے باہر احتجاجی دھرنا دینگے۔

SHAB  KY JAGY HOY TAROONN KO BHI NEEND AANY LAGI BY KUMAR SANOO

Friday, July 15, 2011

کیاکوئی آئی ایس آئی کو قابو میں لا سکتا ہے؟


پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی صحافی سلیم شہزاد کے قتل کے الزام کے بعد ایک بار پھر خبروں میں ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ایجنسی کا میڈیا کے ساتھ رویہ بھی تلخ ہوتا جا رہا ہے۔ بی بی سی اردو سروس کے مدیر عامر احمد خان نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا کوئی آئی ایس آئی کو کنٹرول کر سکتا ہے؟

آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے صحافی سلیم شہزاد کے قتل میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔ ایک اہلکار نے سلیم شہزاد سے رابطوں کی اطلاعات کے حوالے سے کہا ہے کہ اس میں کوئی بددیانتی نہیں تھی۔

اہلکار کے مطابق صحافیوں سے رابطوں میں رہنا ان کے استحقاق میں شامل ہے تاکہ ’ قومی سلامتی سے متعلق امور پر درست معلومات فراہم کی جا سکیں۔‘

کراچی سے شائع ہونے والے انگریزی میگزین ہیرالڈ کی ادارت کے دور میں آئی ایس آئی اور طالبان کے درمیان تعلقات کے حوالے سے خبر شائع کرنے کے بعد مجھے ایک بار ٹیلی فون کر کے یاد دلایا گیا میرا خاندان کتنا پیارا ہے۔ اس خبر نے واضح طور پر آئی ایس آئی میں سے کسی کو ناراض کر دیا تھا۔

گھبراہٹ میں گھر فون کیا تو اطمینان ہوا کہ سب ٹھیک ہے اور اس کے علاوہ میرے بااثر پبلشر کی جانب سے متعلقہ لوگوں کو بھی فون کیے گئے جن میں یقین دہانی کروائی گئی کہ اپنا تعارف کرنل طارق کے نام سے کروانے والا شخص دوبارہ فون نہیں کرے گا۔

لیکن مجھے بعد میں اسلام آباد میں واقع آئی ایس آئی دفتر میں جانا ہوا اور وہاں اندرون ملک سکیورٹی کے ذمہ دار لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ لیکن میں اپنی ڈر کی کیفیت کو ختم نہیں کر سکا کیونکہ مجھے پتا تھا کہ اسی عمارت میں سے کسی نے میرے اہلخانہ پر نظر رکھنے اور ان کی نگرانی کرنے کا حکم دیا تھا۔

ملک کے کسی بھی پریس کلب میں ایک شام گزاریں اور جب آپ وہاں سے اٹھیں گے تو آپ کے پاس ایسی کئی کہانیاں ہوں گی جو آرام سے انڈر ورلڈ کی کہانیوں کی کتاب کی زینت بن سکتی ہیں۔ آپ کو ایسے صحافیوں کی کہانیاں بھی سننے کو ملتی ہیں جن سے بھارت کے سب سے مطلوبہ شخص کی کراچی میں مبینہ موجودگی کی رپورٹنگ کرنے کی پاداش میں خودکشی کرنے کا بیان لکھوایا گیا تھا۔ ایسے نمائندوں کی یادداشتیں بھی ملیں گی جنہوں نے انتخابی عمل میں بے قاعدگی میں ایجنسیوں کے ملوث ہونے کی نشاندہی کی اور اِس وجہ سے انہیں نامعلوم گاڑیاں ٹکر مار کر فرار ہوگئیں۔
ملک کے کسی بھی پریس کلب میں ایک شام گزاریں اور جب آپ وہاں سے اٹھیں گے تو آپ کے پاس ایسی کئی کہانیاں ہوں گی جو آرام سے انڈر ورلڈ کی کہانیوں کی کتاب کی زینت بن سکتی ہیں۔

آپ کو ایسے صحافیوں کی کہانیاں بھی سننے کو ملتی ہیں جن سے بھارت کے سب سے مطلوبہ شخص کی کراچی میں مبینہ موجودگی کی رپورٹنگ کرنے کی پاداش میں خودکشی کرنے کا بیان لکھوایا گیا تھا۔

ایسے نمائندوں کی یادداشتیں بھی ملیں گی جنہوں نے انتخابی عمل میں بے قاعدگی میں ایجنسیوں کے ملوث ہونے کی نشاندہی کی اور اِس وجہ سے انہیں نامعلوم گاڑیاں ٹکر مار کر فرار ہوگئیں۔

مجھے ابھی بھی وہ وقت یاد ہے جب ہمارے قبائلی علاقوں کے صحافی کو آئی ایس آئی نے اٹھا لیا تھا اور چھتیس گھنٹے کے بعد بری طرح تشدد کرنے کے بعد چھوڑا تھا۔

اس واقعے کے پہلے چند گھنٹوں کے اندر اندر ہم نے ہر پولیس افسر سے لے کر وزیر داخلہ تک ہر اس حکومتی اہلکار سے رابطہ کیا جس کو ہم جانتے تھے۔

اور اس کے بعد جب انھوں نے ہماری فون کالز کا جواب دینا ترک کر دیا تو اس وقت ہمیں سمجھ آئی کہ یہ کام بھائی لوگوں( آئی ایس آئی کے اہلکاروں) کا ہے۔

اسی دوران آئی ایس آئی کے قریب مجھے جانے والے ایک صحافی کا مجھے فون آیا، اس نے بتایا کہ ہمارے نامہ نگار کے حلیے سے ملتی جلتی ایک لاش ملی ہے اور اسے اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی کے ایک ہسپتال میں منتقل کر دیا گیا ہے اور بہتر ہے کہ آپ اس لاش کو ایک دفعہ جا کر دیکھ کر لیں۔

مجھے ہسپتال پہنچے میں چالیس منٹ لگے اور میری زندگی میں صحافی کے طور پر یہ چالیس منٹ سب سے مشکل ترین لمحات تھے۔جب میں نے لاش دیکھی تو مجھے ایسا لگا کہ میں اس سے بغل گیر ہوسکتا ہوں۔ مجھے اطمینان ہوا کہ یہ لاش میرے ساتھی کی نہیں ہے اور جب اسے اگلی شام کو رہا کیا گیا تو میں نے خود کو ان کا ایک خاموش شکریہ ادا کرتا پایا، اسے اذیت دینے والوں نے اس کو زندہ چھوڑ دیا تھا۔

اس کے بعد میں نے سال دو ہزار چھ میں قبائلی صحافی حیات اللہ کی ہلاکت کے بعد قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں تین عجیب دن گزارے۔

حیات اللہ کو ایک مقامی کالج کے باہر سے اغواء کیا گیا تھا اور چھ مہینے تک پاس رکھنے کے لیے اس کے سر پر گولی مار دی گئی اور لاش کو سڑک کے کنارے پھینک دیا گیا۔

اس واقعہ کے بارے میں مجھے ایسا لگا کہ اس علاقے میں ہر کسی کو اغواکاروں کی اصل شناخت کے بارے میں معلوم ہے۔

بعض نے یہ یہاں تک ایک کا نام بھی بتا دیا، جو اس کے بارے میں بتایا گیا وہ آئی ایس آئی کا ایک میجر ہو سکتا تھا، جو اکثر حیات اللہ کے اہلخانہ کو فون کرتا تھا اور ان کو بتایا تھا کہ ابھی اس نے یہ ذہن نہیں بنایا کہ آیا حیات اللہ کو چھوڑ دیا جائے یا قتل کر دیا جائے۔

یہ بات بغیر وجہ کے نہیں ہے کہ صحافی سلیم شہزاد کے قتل کے فوری بعد آئی ایس آئی کے خلاف الزامات لگنا شروع ہو گئے۔

پاکستان میں تمام صحافی برادری اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ کس طرح ایجنسی میڈیا اور صحافیوں پر کتنی قریب سے نظر رکھتی ہے۔

پاکستان کے شورش زدہ صوبے بلوچستان میں گزشتہ دو سالوں کے دوران اپنے سیاسی حقوق کا مطالبے کرنے والے دو سو کے قریب سیاسی کارکنوں کو اغوا کیا گیا، ان پر تشدد اور قتل کیا گیا۔

ان کے اہلخانہ تقریباً متفتہ طور پر اس رائے پر قائم ہیں کہ اس میں آئی ایس آئی ملوث ہے، ابھی بھی یہ ہلاکتیں بلا تعطل جاری ہیں۔

یہاں تک کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے بھی اس معاملے میں مداخلت کی کہ لاپتہ ہونے والے ان افراد میں سے بعض کو بازیاب کروایا جا سکے لیکن کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اس معاملے کو محض لاپتہ افراد کے کیس کے طور پر جانا جاتا ہے۔

آئی ایس آئی کے سابق اہلکار فخر سے یہ کہانیاں بیان کرتے ہیں کہ ’ قومی سلامتی کے مفادات‘ کی حفاظت کے مدنظر انھوں نے کس طرح سیاسی اتحاد تشکیل دیے اور منتخب حکومتوں کو گرایا۔

ابھی بھی عام انتخاب کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کے سیاست دان کابینہ میں جگہ بنانے کی امید کے طور پر آئی ایس آئی کے ہیڈ کواٹرز سے رابطے میں رہتے ہیں۔

موجودہ حکومت نے گزشتہ سال ایک کمزور کوشش کی تھی کہ آئی ایس آئی کو وزارتِ داخلہ کے کنٹرول میں لایا جائے۔


اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل احمد شجاع پاشا نے مستعفی ہونے کی پیشکش کی

تاہم ایجنسی نے بڑی تیزی سے ردعمل کا اظہار کیا اور اس ضمن میں جاری ہونے والا نوٹیفیکشن چند گھنٹوں کے اندر واپس ہو گیا اور اس کے بعد یہ اسی طرح سے کام کر رہی ہے۔

اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد آئی ایس آئی کے موجودہ سربراہ جنرل احمد شجاع پاشا نے کھلے عام مکمل طور پر انٹیلیجنس کی ناکامی کا اعتراف کرنے کے بعد مستعفی ہونے کی پیشکش کی تھی۔

ان کی پیشکش کو نا صرف فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی بلکہ تمام پارلیمان نے شائستگی سے مسترد کر دیا۔

ابھی بھی کچھ ایسے ہیں جو ناقابل اصلاح پذیر خوش امیدی کی توقع رکھے ہوئے ہیں کہ صحافی سلیم شہزاد کی موت کے بعد یہ سب تبدیل ہو جائے گا۔

یہ عوام کی ایجنسی پر بڑھتی ہوئی تنقید کی طرف اشارہ کرتے ہیں، اور اس کے مکمل طور پر احتساب نہ ہونے پر مستقل مزاجی سے متحرک میڈیا اس کو بڑھاوا دے رہا ہے۔

پاکستان کے ایک قابل عزت اور بااثر پبلشر حمید ہارون نے بی بی سی کو بتایا کہ صورتحال بریکنگ پوائنٹ تک پہنچ گئی ہے۔’ اس کو ختم ہونا ہو گا‘۔ وہ ہمارے صحافیوں اور اکابرین کے اثاثوں سے اس طرح کا برتاؤ نہیں کر سکتے۔‘

سوال یہ ہے کہ کون اس کو ختم کرنے جا رہا ہے؟

Sunday, July 10, 2011

امریکا کا پاکستانی فوجی امداد معطل کرنے پر غور شروع

نیویارک: امریکی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ اوباما انتظامیہ پاکستان کو دی جانے والی آٹھ سو ملین ڈالر امداد منسوخ یا ملتوی کرسکتی ہے۔ اس کی وجہ پاک امریکہ تعلقات میں موجودہ کشیدگی بتائی جارہی ہے۔ اخبار نیو یارک ٹائمز نے تین امریکی عہدیداروں کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ قدم پاکستان سے امریکی ٹرینرز کو بیدخل کئے جانے کے ردعمل کے طور پر اٹھایا جائے گا۔ جبکہ اوباما انتظامیہ پاکستانی فوج کو دباؤ میں لانا چاہتی ہے تاکہ وہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں موثر طریقے سے کردار ادا کرسکے۔ حکام کا کہنا ہے کہ امریکی حکام کے حالیہ بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اوباما انتظامیہ پاکستان کیساتھ اپنے رویے میں تبدیلی لارہی ہے اور پاک فوج کو دی جانے والی آٹھ سو ملین ڈالرز کی فوجی سازوسامان کی فراہمی متاثر ہوسکتی ہے۔ ریمنڈ ڈیوڈ کیس اور ایبٹ آباد اپریشن کے بعد پاکستان کی جانب سے امریکی ملٹری ٹرینرز کو نکال دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ شمسی ائیر بیس سے سی آئی اے ڈرون حملے بند کئے جانے کی دھمکیوں سے امریکہ ناراض ہے۔ جس کے بعد امریکہ پاکستان کی آٹھ سو ملین ڈالرز کی امداد روک سکتا ہے۔ یا منسوخ کر سکتا ہے۔ یہ رقم پاکستان کیلئے 2 ارب ڈالر کی امریکی امداد کا حصہ ہے۔ جس میں سے تقریباً تین سو ملین ڈالرز پاکستان کی جانب سے پاک افغان بارڈر پر ایک لاکھ سے زائد فوجی دستے تعینات کرنے کی مد میں ادا کئے جانے تھے۔ باقی رقم ملٹری ٹریننگ اور دیگر فوجی سازوسامان کیلئے دی جانی تھی۔ امریکی حکام نے کہا ہے کہ اگر پاکستان دہشت گردوں کیخلاف کاروائی میں سنجیدہ ہوا تو امداد اور فوجی سازوسامان کی فراہمی بحال کی جاسکتی ہے۔ حکام کا کہنا تھا کہ امداد رکنے سے پاکستان کو دفاعی سازوسامان کی فراہمی بشمول ایف سولہ لڑاکا طیاروں یا غیر فوجی امداد پر اثر نہیں پڑے گا۔ امریکی امداد کی کٹوتی سے شاید فوج کے مجموعی بجٹ پر تھوڑا بہت فرق پڑ سکے گا اور غالبا اس سے انسداد دہشت گردی کوششوں پر براہ راست اثر پڑے گا جبکہ بعض سینئر امریکی احکام اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جب صدر اوباما نے اقتدار سنبھالا تو انتظامیہ اس کی امید بھی نہیں کرسکتی تھی کہ پاکستان اس کا اس قدر اتحادی ہوگا۔ بعض نے خبردار کیا ہے کہ امداد روکنے سے تعلقات ختم ہوسکتے ہیں اور 1990 کی دہائی والی صوت حال پیدا ہوسکتی ہے۔ اخبار کے مطابق امریکی حکام کا کہنا ہے کہ موجودہ صورت حال کا ذمہ دار خود پاکستان ہے ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی فوج نے ایبٹ آباد آپریشن کے بعد امریکہ مدد سے خود کو دور کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی میں رواں برس مئی میں ایبٹ آباد میں پاکستانی فوج کی مرکزی تربیتی اکیڈمی سے چند سو میٹر کے فاصلے پر القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ایک خفیہ امریکی فوجی کارروائی میں ہلاکت کے بعد سے شدید اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ امریکی ڈرون حملوں میں عسکریت پسندوں کے علاوہ عام شہریوں کی ہلاکت پر بھی اسلام آباد اور واشنگٹن حکومت کے درمیان تلخی پائی جاتی ہے۔ امریکی اخبار کے مطابق پاکستانی فوج کو سکیورٹی معاونت کے سلسلے میں دی جانے والی اس امداد میں 300 ملین ڈالر وہ رقم ہے۔ جو افغان سرحد پر ایک لاکھ فوجیوں کی تعیناتی کے سلسلے میں پاکستانی فوج کے اخراجات کے سلسلے میں اسے واپس ملنا تھی۔ دیگر امداد فوجی ساز و سامان ہے جو اب پاکستانی فوج کو نہیں دیا جائے گا۔ تاہم ان امریکی عہدیداروں کے مطابق تعلقات معمول پر آنے کے بعد یہ امداد بحال کردی جائے گی۔ چند ہفتے قبل اسلام آباد نے امریکہ سے درخواست کی تھی کہ وہ پاکستان میں موجود امریکہ کے فوجی تربیت کار واپس بلا لے۔ پاکستانی فوج کا کہنا تھا کہ اب تربیت صرف نئے فوجی ساز و سامان کے حوالے سے ہی لی جائے گی۔ اس کے علاوہ پاکستان نے یہ دھمکی بھی دی تھی کہ وہ سی آئی اے کے زیر استعمال پاکستان میں قائم ایک فوجی اڈہ بھی بند کر سکتا ہے۔

Friday, July 8, 2011



 US military’s top officer, Admiral Mike Mullen, said on Thursday that Pakistan’s government may have sanctioned the killing of a Pakistani journalist, voicing grave concern over the attack.
Asked about media reports that Islamabad sanctioned or approved the killing of the reporter, he said: “I haven’t seen anything that would disabuse that report.”
He said he was concerned about the incident and suggested other reporters had suffered a similar fate in the past.
“His (death) isn’t the first. For whatever reason, it has been used as a method historically,” Mullen told reporters at a Pentagon Press Association event.
While acknowledging that Pakistani officials have denied the government had any role in the death of Saleem Shahzad, Mullen said the episode raised worrying questions about the country’s current course.
“It’s not a way to move ahead. It’s a way to continue to quite frankly spiral in the wrong direction,” said Mullen, who has held numerous meetings with Pakistani counterparts during his tenure as chairman of the US Joint Chiefs of Staff.
Mullen’s remarks are sure to aggravate already strained relations between the uneasy allies after the US raid north of Islamabad in May that killed Al-Qaeda chief Osama bin Laden,
The New York Times, citing US officials, had reported on Monday that the powerful Inter-Services Intelligence (ISI) agency ordered the killing of Shahzad to muzzle criticism.
The ISI has vehemently dismissed such reports as “baseless” allegations.
Shahzad, who worked for an Italian news agency and a Hong Kong-registered news site and had reported about Islamist militants infiltrating the military, went missing en route to a television talk show and his body was found May 31 south of the capital, bearing marks of torture.
Shahzad disappeared two days after writing an investigative report in Asia Times Online saying Al-Qaeda carried out a recent attack on a naval air base to avenge the arrest of naval officials held on suspicion of Al-Qaeda links.
Pakistani Prime Minister Yousuf Raza Gilani had ordered an inquiry into the kidnapping and murder, pledging that the culprits would be brought to book.
Citing mounting tensions over the past year, Mullen said the relationship with Pakistan is under extraordinary pressure.
Even before the unilateral Bin Laden raid, ties had become strained, Mullen said, particularly over the arrest of a CIA contractor in Pakistan who was charged with double murder before eventually being released.
“So we’ve been through a very, very rough time. Washington was committed to sustaining that relationship, but we recognize it’s under great stress right now and we need to see our way through it,” he said.
The military’s top-ranking officer, who is due to step down at the end of September after four years, also said that the US military presence in Pakistan had been dramatically scaled back at Islamabad’s request.

Sunday, July 3, 2011


 آٹھ مقام (بیورو رپورٹ ) پی ایس ایف کے سابق رہنماہ شیخ جواد مشتاق لیسوا کے مقام پر کارکنوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی عوام کے اعتماد پر پورا ترے گی مفاہمت کی سیاست کے تحت لوگوں کے کام کئے جائیں گے کسی کے ساتھ کوئی انتقامی کاروائی نہیں ہو گی آزاد کشمیر میں مضبوط اور فعال عوامی حکومت قائم کرنے کے لئے بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کو وزیر اعظم بنایا جائے پیپلز پارٹی کے کارکنان نے بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کو وزیر اعظم بنانے کے لئے وفاقی قیادت کو اپنی رائے سے آگاہ کر دیا ہے۔


 آٹھ مقام (بیورو رپورٹ ) رشتہ کے تنازع نوجوان کو گولی مار کر شدید زخمی کر دیا مقدمہ درج پولیس نے کاروائی شروع کر دی۔ تفصیلات کے مطابق طفیل اختر بھٹی سکنہ اشکوٹ کو رشتہ دینے کے انکار پر لڑکی والوں کے رشتہ دار عبدالرشید ولد مجید نے پستول سے فائر کر کے شدید زخمی کر دیا ہے لوگوں نے واقعہ کی اطلاع قریبی پولیس کو دی مضروبہ کو شدید زخمی حالت میں ایم ڈی ایس منتقل کرتے ہوئے ایف آئی آر درج کر کے ملزم عبدالرشید کو گرفتار کر کے تفتیش شروع کر دی ہے ۔ 


 آٹھ مقام (بیورو رپورٹ ) مسلم کانفرنس کے سینئر کارکنوں راجہ زاہد خان ، راشد بصیرشرافت علی میر نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا کہ مسلم کانفرنس نیلم کی مقامی قیادت اتخابات میں سنجیدہ نہیں تھی مسلم کانفرنس کے امیدوار سردار گل خنداں اپنے لئے ووٹ مانگنے کے بجائے پیپلز پارٹی کی مہم چلارہے تھے آخری تین دنوں میں لوگوں سے ملنے کے بجائے گھر سوئے رہے کسی جگہ پورے الیکشن میں دس روپے کا پوسٹر تک نہیں لگایا نظریاتی کارکنوں نے بھرم رکھنے کے لئے چندہ کر کے جھنڈے اور پرانے بینر پوسٹر آیزاں کئے رکھے الیکشن ہارنے کے بعد ووٹ دینے والوں کا شکریہ تک ادا کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی ہے جبکہ خواجہ شفیق نے مسلم لیگ ن کے امیدوار شاہ غلام قادر کو ووٹ دلوائے مفتی منصور جماعت کو ووٹ دلانے کے بجائے شاہ غلام قادر کے خلاف مہم چلا کر رکھی اور ووٹ پیپلز پارٹی کو دیا جماعتی کارکنوں اور صدر جماعت سردار عتیق احمد خان کو دھوکہ دیا اب دھاندلی کا بہانہ بناکر جان بچانے کی کوشش کر رہے ہیں انھوں نے صدر جماعت سردار عتیق احمد خان نے مقامی قیادت کی خرمستیوں کا نو ٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے ۔

آٹھ مقام (بیورو رپورٹ) نیلم بس حادثہ میں جاں بحق ہونے والی خاتون کی نعش دریائے نیلم سے باڑیاں کے مقام سے برآمد نعش امانتا دفن، تفصیلات کے مطابق گذشتہ ماہ وادی نیلم کے بس حادثہ میں جاں بحق ہو نے والی ایک خاتون آسیہ مجید کی مسخ شدہ نعش باڑیاں کے مقام سے دریائے نیلم سے برآمد ہوئی ہے جس کو مقامی لوگوں نے ورثاءکے نہ ملنے پر امانتا تدفین کر دی ہے ۔ 
 آٹھ مقام (بیورو رپورٹ ) آزاد جموں وکشمیر قانون سازاسمبلی کے حلقہ ایل اے30اور ایل اے36میں انتخابات کے التواءکے خلاف متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے آزاد جموں وکشمیر ہائیکورٹ میں دائردرخواست پر بحث مکمل ،عدالت نے دونو ں فریقین کے وکلاءکے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا ۔الیکشن کمیشن کی جانب سے دونوں حلقوں میں انتخابات ملتوی کیے جانے کے اقدام کو متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے طاہر کھوکھر نے آزاد جموں وکشمیر ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا جس کی سماعت ہائیکورٹ کے فل بینچ نے کی ۔ہفتہ کے روز درخواست کی سماعت کرنے والے فل بینچ کی سربراہی چیف جسٹس ہائیکورٹ آزاد جموں وکشمیر جسٹس غلام مصطفی مغل نے کی جبکہ بینچ میںجسٹس چودھری منیر احمد اور جسٹس ایم تبسم آفتاب علوی شامل تھے ۔متحدہ قومی موومنٹ کی طرف سے پارلیمانی لیڈر طاہر کھوکھراور ان کے وکیل میر شرافت ایڈوکیٹ جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے خواجہ نسیم احمد ایڈوکیٹ پیش ہوئے ۔ایم کیو ایم کی جانب سے دائر کردہ رٹ کے جواب میں الیکشن کمیشن نے موقف اختیار کیا کہ کراچی میں امن و امان کے صورت حال کے پیش نظر انتخابات ملتوی کیے گئے ۔کراچی میں امن عامہ کو برقرار رکھنا حکومت سندھ کی ذمہ داری ہے اور اس میں الیکشن کمیشن یہ آزاد کشمیر حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں ۔جونہی سندھ حکومت امن و امان کی صورتحال کی بہتری کے حوالے سے رپورٹ دے گی فوری انتخابات منعقد کر دیے جائیں گے۔اس پر عدالت نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے سوال کیا کہ اگر آزاد کشمیر کے ان انتخابی حلقوں میں جہاں لوگ مرے، گاڑیاں جلی ، عدالتوں پر حملے ہوئے عمارتیں جلائی گئیں اور بیلٹ بکس چھینے گئے وہاں دوبارہ الیکشن کا شیڈول دیا جا سکتا ہے تو کراچی میں کیوں نہیں۔متحدہ قومی موومنٹ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے حکومت سند ھ پولیس کی جس رپورٹ کو بنیاد بنا کر الیکشن ملتوی کیے گئے اس میں اس قسم کا کئی تذکرہ نہیں کہ کراچی میں امن و امان کی صورتحال خراب ہے اور بلکہ اسمیں کیا گیا ہے کہ دونوں ریٹرننگ افسران کی جانوں کو خطرہ ہے جبکہ وہ وہ دونوں اپنے عہدوں سے پہلے ہی استعفیٰ دے چکے ہیں اور الیکشن کمیشن پاکستان کی جانب سے متبادل ناموں کے فراہمی کے باوجود آزاد کشمیر الیکشن کمیشن نے نئے ریٹرننگ افسران کی تعیناتی کی کاروائی نہیں کی۔عدالت کو بتایا گیا کہ دونوں حلقوں میں انتخابات میں تاخیر کے زریعے وہاں سے منتخب ہونے والے اراکین اسمبلی کو مخصوص نشستوں پر انتخابی عمل سے باہر رکھنے کی سازش کی جا رہی ہے جو ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے وفاقی وزیر داخلہ، وزیر اعلیٰ سندھ اور وزیر بلدیات سندھ اسمبلی فلور پر اور میڈیا کے سامنے یہ بیان دے چکے ہیں کہ کراچی میں امن و امن کی صورت حال بہتر اور بلدیاتی انتخابات کے لیے حالات سازگار ہیںمگر اس کے باوجود مبہم پولیس رپورٹ پر الیکشن کا التواءایک سازش کا حصہ ہے جس سے ہزاروں ووٹروں کے بنیادی حقوق غصب کیے گئے ہیں۔اپنے ریمارکس میںچیف جسٹس نے کہا کہ آئین سپریم لاءہے اور اس پر کسی دوسرے قانون کو فوقیت نہیں دی جا سکتی۔ عدالت کے فل بینچ نے دونوں فریقین کے وکلاءکے دلائل سننے کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے اور توقع ہے کہ یہ فیصلہ سوموار تک سنا دیا جائے گا۔ 


آٹھ مقام ( نمائندہ جنگ ) لائن آف کنٹرول ٹیٹوال سیکٹر چلہانہ کراسنگ پوایئنٹ سے41 افراد نے لائن آف کنٹرول عبور کر لی ۔ تفصیلات کے مطابق منقسم کشمیری خاندانوں کے41 افراد نے اپنے عزیز اقارب کو ملنے کے لئے چلہانہ کراسنگ پوائنٹ سے لائن آف کنٹرول کو عبور کیا ہے آزاد کشمیر سے23 افراد بھارتی زیر انتظام کشمیر کا سفر کیا ہے18 افراد اپنے پیاروں کو ملنے کے لئے آزاد کشمیر آئے ہیں مجموعی طور پر41 افراد کی آمدرفت ہوئی ہے کراسنگ کے دوران دونوں اطراف میں مقامی انتظامیہ آفیسران سکیورٹی اہلکار موجود تھے آر پار جانے والے افراد کو ان کے میزبانوں نے خوش آمدید کہتے ہوئے استقبال کیا ہے ۔


آٹھ مقام ( نمائندہ جنگ ) متحدہ یوتھ فورم نیلم کے چیئر مین مفتی اعجاز احمد خان نے اپنے جاری بیان میں کہا کہ مقامی ایم ایل اے میاں وحید نے سیاسی کریڈٹ حاصل کرنے کے لئے وفاقی حکومت سے نیلم میں موبائل فون سروس کی فراہمی کی راہ میں رکاوٹ ڈالے رکھی میاں وحید ایک بار پھر یم ایل اے بننے میں کامیاب ہو گیا ہے آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کی حکومت بھی قائم ہو جائے گی میاں وحید پہلی فرصت میں پورے نیلم میں موبائل فون سروس کی فراہمی کو یقینی بنائیں الیکشن کے دوران ایس کام کی فراہمی کا ڈرامہ رچا کر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی پانی سر سے گزر چکاہے نیلم کے عوام اب کسی طفل تسلی میں نہیں آئیں گے جدید مواصلات کی سہولیات کی فراہمی تک نیلم عوام متحدہ محاذ کا اجتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا حکومت کے بننے کے بعد اس میں مزید تیزی لائی جائے گی