Friday, July 15, 2011

کیاکوئی آئی ایس آئی کو قابو میں لا سکتا ہے؟


پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی صحافی سلیم شہزاد کے قتل کے الزام کے بعد ایک بار پھر خبروں میں ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ایجنسی کا میڈیا کے ساتھ رویہ بھی تلخ ہوتا جا رہا ہے۔ بی بی سی اردو سروس کے مدیر عامر احمد خان نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا کوئی آئی ایس آئی کو کنٹرول کر سکتا ہے؟

آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے صحافی سلیم شہزاد کے قتل میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔ ایک اہلکار نے سلیم شہزاد سے رابطوں کی اطلاعات کے حوالے سے کہا ہے کہ اس میں کوئی بددیانتی نہیں تھی۔

اہلکار کے مطابق صحافیوں سے رابطوں میں رہنا ان کے استحقاق میں شامل ہے تاکہ ’ قومی سلامتی سے متعلق امور پر درست معلومات فراہم کی جا سکیں۔‘

کراچی سے شائع ہونے والے انگریزی میگزین ہیرالڈ کی ادارت کے دور میں آئی ایس آئی اور طالبان کے درمیان تعلقات کے حوالے سے خبر شائع کرنے کے بعد مجھے ایک بار ٹیلی فون کر کے یاد دلایا گیا میرا خاندان کتنا پیارا ہے۔ اس خبر نے واضح طور پر آئی ایس آئی میں سے کسی کو ناراض کر دیا تھا۔

گھبراہٹ میں گھر فون کیا تو اطمینان ہوا کہ سب ٹھیک ہے اور اس کے علاوہ میرے بااثر پبلشر کی جانب سے متعلقہ لوگوں کو بھی فون کیے گئے جن میں یقین دہانی کروائی گئی کہ اپنا تعارف کرنل طارق کے نام سے کروانے والا شخص دوبارہ فون نہیں کرے گا۔

لیکن مجھے بعد میں اسلام آباد میں واقع آئی ایس آئی دفتر میں جانا ہوا اور وہاں اندرون ملک سکیورٹی کے ذمہ دار لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ لیکن میں اپنی ڈر کی کیفیت کو ختم نہیں کر سکا کیونکہ مجھے پتا تھا کہ اسی عمارت میں سے کسی نے میرے اہلخانہ پر نظر رکھنے اور ان کی نگرانی کرنے کا حکم دیا تھا۔

ملک کے کسی بھی پریس کلب میں ایک شام گزاریں اور جب آپ وہاں سے اٹھیں گے تو آپ کے پاس ایسی کئی کہانیاں ہوں گی جو آرام سے انڈر ورلڈ کی کہانیوں کی کتاب کی زینت بن سکتی ہیں۔ آپ کو ایسے صحافیوں کی کہانیاں بھی سننے کو ملتی ہیں جن سے بھارت کے سب سے مطلوبہ شخص کی کراچی میں مبینہ موجودگی کی رپورٹنگ کرنے کی پاداش میں خودکشی کرنے کا بیان لکھوایا گیا تھا۔ ایسے نمائندوں کی یادداشتیں بھی ملیں گی جنہوں نے انتخابی عمل میں بے قاعدگی میں ایجنسیوں کے ملوث ہونے کی نشاندہی کی اور اِس وجہ سے انہیں نامعلوم گاڑیاں ٹکر مار کر فرار ہوگئیں۔
ملک کے کسی بھی پریس کلب میں ایک شام گزاریں اور جب آپ وہاں سے اٹھیں گے تو آپ کے پاس ایسی کئی کہانیاں ہوں گی جو آرام سے انڈر ورلڈ کی کہانیوں کی کتاب کی زینت بن سکتی ہیں۔

آپ کو ایسے صحافیوں کی کہانیاں بھی سننے کو ملتی ہیں جن سے بھارت کے سب سے مطلوبہ شخص کی کراچی میں مبینہ موجودگی کی رپورٹنگ کرنے کی پاداش میں خودکشی کرنے کا بیان لکھوایا گیا تھا۔

ایسے نمائندوں کی یادداشتیں بھی ملیں گی جنہوں نے انتخابی عمل میں بے قاعدگی میں ایجنسیوں کے ملوث ہونے کی نشاندہی کی اور اِس وجہ سے انہیں نامعلوم گاڑیاں ٹکر مار کر فرار ہوگئیں۔

مجھے ابھی بھی وہ وقت یاد ہے جب ہمارے قبائلی علاقوں کے صحافی کو آئی ایس آئی نے اٹھا لیا تھا اور چھتیس گھنٹے کے بعد بری طرح تشدد کرنے کے بعد چھوڑا تھا۔

اس واقعے کے پہلے چند گھنٹوں کے اندر اندر ہم نے ہر پولیس افسر سے لے کر وزیر داخلہ تک ہر اس حکومتی اہلکار سے رابطہ کیا جس کو ہم جانتے تھے۔

اور اس کے بعد جب انھوں نے ہماری فون کالز کا جواب دینا ترک کر دیا تو اس وقت ہمیں سمجھ آئی کہ یہ کام بھائی لوگوں( آئی ایس آئی کے اہلکاروں) کا ہے۔

اسی دوران آئی ایس آئی کے قریب مجھے جانے والے ایک صحافی کا مجھے فون آیا، اس نے بتایا کہ ہمارے نامہ نگار کے حلیے سے ملتی جلتی ایک لاش ملی ہے اور اسے اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی کے ایک ہسپتال میں منتقل کر دیا گیا ہے اور بہتر ہے کہ آپ اس لاش کو ایک دفعہ جا کر دیکھ کر لیں۔

مجھے ہسپتال پہنچے میں چالیس منٹ لگے اور میری زندگی میں صحافی کے طور پر یہ چالیس منٹ سب سے مشکل ترین لمحات تھے۔جب میں نے لاش دیکھی تو مجھے ایسا لگا کہ میں اس سے بغل گیر ہوسکتا ہوں۔ مجھے اطمینان ہوا کہ یہ لاش میرے ساتھی کی نہیں ہے اور جب اسے اگلی شام کو رہا کیا گیا تو میں نے خود کو ان کا ایک خاموش شکریہ ادا کرتا پایا، اسے اذیت دینے والوں نے اس کو زندہ چھوڑ دیا تھا۔

اس کے بعد میں نے سال دو ہزار چھ میں قبائلی صحافی حیات اللہ کی ہلاکت کے بعد قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں تین عجیب دن گزارے۔

حیات اللہ کو ایک مقامی کالج کے باہر سے اغواء کیا گیا تھا اور چھ مہینے تک پاس رکھنے کے لیے اس کے سر پر گولی مار دی گئی اور لاش کو سڑک کے کنارے پھینک دیا گیا۔

اس واقعہ کے بارے میں مجھے ایسا لگا کہ اس علاقے میں ہر کسی کو اغواکاروں کی اصل شناخت کے بارے میں معلوم ہے۔

بعض نے یہ یہاں تک ایک کا نام بھی بتا دیا، جو اس کے بارے میں بتایا گیا وہ آئی ایس آئی کا ایک میجر ہو سکتا تھا، جو اکثر حیات اللہ کے اہلخانہ کو فون کرتا تھا اور ان کو بتایا تھا کہ ابھی اس نے یہ ذہن نہیں بنایا کہ آیا حیات اللہ کو چھوڑ دیا جائے یا قتل کر دیا جائے۔

یہ بات بغیر وجہ کے نہیں ہے کہ صحافی سلیم شہزاد کے قتل کے فوری بعد آئی ایس آئی کے خلاف الزامات لگنا شروع ہو گئے۔

پاکستان میں تمام صحافی برادری اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ کس طرح ایجنسی میڈیا اور صحافیوں پر کتنی قریب سے نظر رکھتی ہے۔

پاکستان کے شورش زدہ صوبے بلوچستان میں گزشتہ دو سالوں کے دوران اپنے سیاسی حقوق کا مطالبے کرنے والے دو سو کے قریب سیاسی کارکنوں کو اغوا کیا گیا، ان پر تشدد اور قتل کیا گیا۔

ان کے اہلخانہ تقریباً متفتہ طور پر اس رائے پر قائم ہیں کہ اس میں آئی ایس آئی ملوث ہے، ابھی بھی یہ ہلاکتیں بلا تعطل جاری ہیں۔

یہاں تک کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے بھی اس معاملے میں مداخلت کی کہ لاپتہ ہونے والے ان افراد میں سے بعض کو بازیاب کروایا جا سکے لیکن کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اس معاملے کو محض لاپتہ افراد کے کیس کے طور پر جانا جاتا ہے۔

آئی ایس آئی کے سابق اہلکار فخر سے یہ کہانیاں بیان کرتے ہیں کہ ’ قومی سلامتی کے مفادات‘ کی حفاظت کے مدنظر انھوں نے کس طرح سیاسی اتحاد تشکیل دیے اور منتخب حکومتوں کو گرایا۔

ابھی بھی عام انتخاب کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کے سیاست دان کابینہ میں جگہ بنانے کی امید کے طور پر آئی ایس آئی کے ہیڈ کواٹرز سے رابطے میں رہتے ہیں۔

موجودہ حکومت نے گزشتہ سال ایک کمزور کوشش کی تھی کہ آئی ایس آئی کو وزارتِ داخلہ کے کنٹرول میں لایا جائے۔


اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل احمد شجاع پاشا نے مستعفی ہونے کی پیشکش کی

تاہم ایجنسی نے بڑی تیزی سے ردعمل کا اظہار کیا اور اس ضمن میں جاری ہونے والا نوٹیفیکشن چند گھنٹوں کے اندر واپس ہو گیا اور اس کے بعد یہ اسی طرح سے کام کر رہی ہے۔

اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد آئی ایس آئی کے موجودہ سربراہ جنرل احمد شجاع پاشا نے کھلے عام مکمل طور پر انٹیلیجنس کی ناکامی کا اعتراف کرنے کے بعد مستعفی ہونے کی پیشکش کی تھی۔

ان کی پیشکش کو نا صرف فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی بلکہ تمام پارلیمان نے شائستگی سے مسترد کر دیا۔

ابھی بھی کچھ ایسے ہیں جو ناقابل اصلاح پذیر خوش امیدی کی توقع رکھے ہوئے ہیں کہ صحافی سلیم شہزاد کی موت کے بعد یہ سب تبدیل ہو جائے گا۔

یہ عوام کی ایجنسی پر بڑھتی ہوئی تنقید کی طرف اشارہ کرتے ہیں، اور اس کے مکمل طور پر احتساب نہ ہونے پر مستقل مزاجی سے متحرک میڈیا اس کو بڑھاوا دے رہا ہے۔

پاکستان کے ایک قابل عزت اور بااثر پبلشر حمید ہارون نے بی بی سی کو بتایا کہ صورتحال بریکنگ پوائنٹ تک پہنچ گئی ہے۔’ اس کو ختم ہونا ہو گا‘۔ وہ ہمارے صحافیوں اور اکابرین کے اثاثوں سے اس طرح کا برتاؤ نہیں کر سکتے۔‘

سوال یہ ہے کہ کون اس کو ختم کرنے جا رہا ہے؟

No comments:

Post a Comment